فرانس میں حجاب پر مجوزہ پابندی کیخلاف مسلمان خواتین کا آن لائن احتجاج

اپ ڈیٹ 04 مئ 2021
فرانسیسی سینیٹرز کی تجویز مسلمان خواتین بہت جلد عوامی سطح پر حجاب پہننے کی آزادی سے محروم کر سکتی ہیں— فوٹو: رائٹرز
فرانسیسی سینیٹرز کی تجویز مسلمان خواتین بہت جلد عوامی سطح پر حجاب پہننے کی آزادی سے محروم کر سکتی ہیں— فوٹو: رائٹرز

16 سالہ مسلمان خاتون مریم چورک حجاب کو حضرت محمد ﷺ سے عقیدت کا اظہار سمجھتی ہیں لیکن فرانسیسی سینیٹرز کی تجویز انہیں بہت جلد عوامی سطح پر حجاب پہننے کی آزادی سے محروم کر سکتی ہے۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق فرانس کی سیکولر اقدار کو مستحکم کرنے کے لیے تیار کردہ 'انسداد علیحدگی پسندی' بل میں ترمیم کی گئی ہے جو 18 سال سے کم عمر لڑکیوں پر لاگو ہوتا ہے۔

اس بل پر مسلمان خواتین نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے اور اس سلسلے میں آن لائن 'ہینڈز آف مائی حجاب' کے ہیش ٹیگ سے فرانس سمیت اس سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں بھی احتجاج ریکارڈ کرایا گیا۔

مزید پڑھیں: فرانس میں حجاب پر پابندی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، اقوام متحدہ

مریم نے کہا کہ یہ میری شناخت کا حصہ ہے، مجھے اس کو ہٹانے پر مجبور کرنا تضحیک آمیز بات ہوگی، مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ انہیں اس امتیازی سلوک کا حامل بل منظور کرنے کی ضرورت کیا ہے۔

مذہبی مقامات اور مذہبی علامتوں کے حوالے سے سیکولر ملک فرانس ایک عرصے سے تنازعات کا شکار ہے اور یورپ کی سب سے بڑی مسلم اقلیت فرانس میں ہی رہائش پذیر ہے۔

فرانس نے 2004 میں سرکاری اسکولوں میں اسلامی اسکارف پہننے پر پابندی عائد کردی تھی، 2010 میں اس نے گلیوں، پارکوں، پبلک ٹرانسپورٹ اور انتظامی عمارتوں جیسے عوامی مقامات پر نقاب کرنے پر مکمل پابندی عائد کردی تھی۔

یہ ترمیم تمام مذہبی علامتوں کے لیے تھی لیکن مخالفین کا ماننا ہے کہ اس کا مقصد مسلمانوں کو نشانہ بنانا تھا، سینیٹر کرسچن بلھاک نے اپریل میں قانون سازوں سے کہا تھا کہ اس سے نوجوانوں کی حفاظت ہو گی۔

انہوں نے ایوان بالا سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ والدین کو اپنے بچوں پر یہ پابندیاں عائد نہیں کرنی چاہئیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسپورٹس کمپنی نے فرانس میں حجاب کی فروخت بند کردی

نوجوان خواتین کا ایک گروپ اپنے کے رہائشی کمروں سے حجاب پر ممکنہ پابندی کے خلاف 'ہینڈز آف مائی ہجاب' کے ہیش ٹیگ سے مہم چلا رہا ہے۔

انہوں نے سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر حمایت حاصل بھی کر لی ہے جس میں قابل ذکر نام امریکی قانون ساز اور اولمپکس میں حجاب پہن کر حصہ لینے والی پہلی امریکی خاتون ابیج محمد کے ہیں۔

25سالہ میڈیکل کی طالبعلم مونا ال ماشولی نے کہا کہ سیاست دان ہم سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ ہمیں اس تخیلاتی جبر سے بچانا چاہتے ہیں لیکن دراصل یہی لوگ ہم پر ظلم کر رہے ہیں۔

صدر ایمینوئیل میکرون کی حکومت کے علیحدگی مخالف بل میں جبری شادیوں اور کنواری پن کے ٹیسٹوں پر پابندی لگائی گئی ہے اور اس میں مذہبی انجمنوں کی سخت نگرانی بھی شامل ہے، ابتدائی طور پر اس بل میں نابالغوں کے عوامی سطح پر حجاب پہننے سے پابندی کے حوالے سے کوئی بات شامل نہیں کی گئی تھی۔

قدامت پسند اکثریتی سینیٹ اراکین نے بل ترمیم کرتے ہوئے یہ پابندی عائد کی جس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ مائیں بچوں کے ساتھ اسکول جاتے ہوئے حجاب نہیں پہنیں گی اور مکمل جسم کے برکینی سوئمنگ سوٹ پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: شہرہ آفاق عالمی فیشن برانڈ نے پہلی بار حجاب متعارف کرادیا

پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی ایک مشترکہ کمیٹی ان ترامیم پر بحث کرے گی اور انہیں ابھی بھی بل سے ختم کیا جاسکتا ہے۔

لیکن 22 سالہ حبا لٹریچ کا ماننا ہے کہ جو نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ فرانس میں خواتین کے جسم، انتخاب اور عقائد کے حوالے سے مسلسل پالیسی سازی کا عالم ہے جبکہ ساتھ ساتھ مسلم خواتین کو آلہ کار بنایا جا رہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں