اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس نے عوامی فنڈز کا غلط استعمال کیا، آڈٹ رپورٹ

اپ ڈیٹ 08 مئ 2021
ہائی کورٹ انتظامیہ نے مالی بے ضابطگیوں سے متعلق آڈٹ پیرا سابق چیف جسٹس انور کاسی کو بھیج دیا، رپورٹ — اے ایف پی:فائل فوٹو
ہائی کورٹ انتظامیہ نے مالی بے ضابطگیوں سے متعلق آڈٹ پیرا سابق چیف جسٹس انور کاسی کو بھیج دیا، رپورٹ — اے ایف پی:فائل فوٹو

اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایک دہائی کے بعد عدالتی احتساب کے عمل کو دوبارہ بحال کردیا جس کی وجہ سے آڈیٹرز کو عدلیہ کے مالی امور کی جانچ پڑتال کرنے کا اختیار مل گیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے کیے گئے پہلے آڈٹ میں سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ انور خان کاسی پر ذاتی استعمال کے لیے عوامی فنڈز کا غلط استعمال کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ، وزارت خزانہ اور آڈیٹرز کے عہدیداروں پر مشتمل محکمانہ آڈٹ کمیٹی (ڈی اے سی) کے اجلاس کے مندرجات کے مطابق 18 لاکھ 90 ہزار روپے کی رقم 'مکان کے کرائے کی مد میں زائد ادا' کی گئی جہاں ریٹائرڈ جسٹس انور کاسی رہائش پذیر تھے۔

وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج اور چیف جسٹس کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ حملہ کیس میں تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی تشکیل

گزشتہ روز ہونے والے اجلاس کے چند مندرجات اسلام آباد ہائی کورٹ کی سرکاری ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیے گئے۔

دستاویز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ انتظامیہ نے مذکورہ مالی بے ضابطگیوں سے متعلق آڈٹ پیرا سابق چیف جسٹس انور کاسی کو بھیج دیا ہے، تاہم انہوں نے اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔

دستاویز میں کہا گیا ہے کہ 'ڈی اے سی کو آگاہ کیا گیا تھا کہ آڈٹ پیرا متعلقہ فرد کو بھیج دیا گیا ہے، جواب موصول ہونے پر فیصلہ کیا جانا ہے'۔

بعد ازاں ڈی اے سی نے ثبوت کے ساتھ جواب موصول ہونے تک آڈٹ پیرا پر کارروائی موخر کردی۔

اسی طرح آڈیٹرز کو 'سابق چیف جسٹس کی جانب سے رہائشی مقاصد کے لیے ججز کے ریسٹ ہاؤس کے لیے حاصل کی گئی عمارت کے بے قاعدہ استعمال' کا بھی انکشاف ہوا جس میں 89 لاکھ 30 ہزار روپے شامل ہیں۔

ڈی اے سی کو ایک بار پھر آگاہ کیا گیا کہ آڈٹ اعتراض سابق چیف جسٹس کو بھیج دیا گیا ہے اور ان کے جواب کا ابھی تک انتظار ہے۔

جواب موصول ہونے تک اس آڈٹ پیرا پر کارروائی بھی موخر کردی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ کا بیوروکریٹس کی ترقی برقرار رکھنے کا فیصلہ

ایک اور آڈٹ پیرا اسلام آباد کے سیکٹر جی-11/3 میں ججز ریسٹ ہاؤس کی بحالی سے متعلق ہے۔

ڈی اے سی کے اجلاس کے دوران بتایا گیا کہ ہائی کورٹ انتظامیہ کمیٹی نے ریسٹ ہاؤس کے حوالے سے عدالت کے سینئر ججز پر مشتمل ایک پالیسی نوٹی فکیشن کی منظوری دے دی ہے۔

بتایا گیا کہ یکم دسمبر 2019 سے ریسٹ ہاؤس کے لیے کرائے کے قیمت کی بھی منظوری دے دی گئی ہے اور اب قبضے کے رجسٹر کا انتظام کیا جارہا ہے اور قابضین سے کرایہ وصول کرکے سرکاری خزانے میں جمع کردیا گیا ہے۔

ڈی اے سی نے ریکارڈ کی تصدیق سے مشروط آڈٹ پیرا کو طے کیا ہے۔

اس سے قبل 2013 میں اس وقت کی اسلام آباد ہائی کورٹ انتظامیہ نے داخلی آڈٹ رپورٹ کو روکنے کے بعد آڈیٹرز کی جانب سے نشاندہی کی تھی کہ وفاقی دارالحکومت میں سرکاری رہائش گاہوں کے علاوہ کم از کم تین ججز کو ماہانہ 65 ہزار روپے کا مکان کے کرائے کا الاؤنس مل رہا تھا۔

مزید پڑھیں: معاملہ ختم کرنے کیلئے وکلا خود حملہ کرنے والوں کے نام دیں، اسلام آباد ہائی کورٹ

رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ انتظامیہ نے 12-2011 میں ججز کے ریسٹ ہاؤس کے طور پر تین مکانات حاصل کیے اور انہیں ججز کو الاٹ کیا۔

اسی دوران اسلام آباد ہائی کورٹ انتظامیہ نے ججز کو مکان کے کرائے کا الاؤنس کی ادائیگی بھی جاری رکھی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے عہدے پر رہتے ہوئے رجسٹرار ڈاکٹر فقیر محمد کو کمیٹی میں پیش ہونے سے روکنے کے بعد اعلیٰ عدالتوں نے اپنی آڈٹ رپورٹس پی اے سی کے سامنے پیش کرنا بند کر دی تھیں۔

9 اپریل 2010 کو پی اے سی کے اجلاس کے دوران کمیٹی کے اس وقت کے چیئرمین چوہدری نثار علی خان نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کو دیگر تمام سرکاری وزارتوں اور محکموں کی طرح پارلیمانی کمیٹی کے سامنے جوابدہ ہونا چاہیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں