کابل کے اسکول کے باہر کار بم دھماکا، طالبات سمیت 68 افراد ہلاک

اپ ڈیٹ 10 مئ 2021
—فوٹو: اے ایف پی
—فوٹو: اے ایف پی
سید الشہدا اسکول سے لائی جانے والی زیادہ تر لاشیں طالبات کی ہیں— فوٹو: رائٹرز
سید الشہدا اسکول سے لائی جانے والی زیادہ تر لاشیں طالبات کی ہیں— فوٹو: رائٹرز

افغانستان کے دارالحکومت کابل کے اسکول کے باہر کار بم دھماکے اور مارٹر حملے میں ہلاکتوں کی تعداد 68 ہوگئی اور 165 سے زائد زخمی ہیں۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق زخمیوں میں زیادہ تر طالبات شامل ہیں اور افغان صدر اشرف غنی نے اس حملے کا الزام طالبان پر عائد کیا ہے۔

مزید پڑھیں: افغان صدر کا طالبان سے جنگ ختم کرنے، اقتدار میں شامل ہونے کا مطالبہ

ایک سرکاری عہدیدار کا کہنا تھا کہ اسکول کے باہر ہونے والے دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 68 اور 165 سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔

وزارت داخلہ کے ایک سینئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر رائٹرز کو بتایا کہ سید الشہدا اسکول سے لائی جانے والی زیادہ تر لاشیں طلبہ کی ہیں۔

ٹی وی چینل طلوع نیوز کی فوٹیج اسکول کے باہر دردناک مناظر کی منظر کشی کر رہی ہے جہاں سڑک پر خون میں لت پت کتابیں اور اسکول بیگ پڑے ہیں اور مقامی افراد اپنے تئیں مدد کر کے زخمیوں کو ہسپتال منتقل کر رہے تھے۔

ایک عینی شاہد نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر رائٹرز کو بتایا کہ یہ کار بم دھماکا تھا جو اسکول کے مرکزی دروازے کے سامنے ہوا، دھماکے میں ہلاک افراد میں سے سات سے آٹھ وہ طالبات تھیں جو اسکول ختم ہونے کے بعد گھر جا رہی تھیں۔

قبل ازیں وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آریان نے بتایا تھا کہ دھماکے میں 30 افراد ہلاک اور 52 زخمی ہوئے لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ اسکول کو کیوں ہدف بنایا گیا۔

کابل ان دنوں ہائی الرٹ پر ہے کیونکہ واشنگٹن نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ 11 ستمبر تک تمام امریکی فوجیوں کا افغانستان سے انخلا ہو جائے گا اور افغان حکام کے مطابق اس اعلان کے بعد طالبان نے ملک بھر میں حملے تیز کر دیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا پاکستان، دیگر ہمسایہ ممالک کیلئے ایک امتحان

ابھی تک کسی بھی گروپ نے ہفتے کو کیے گئے ان حملوں کی ذمے داری قبول نہیں کی جبکہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی اس حملے میں اپنے گروپ کے ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے واقعے کی مذمت کی ہے۔

ہفتے کے روز دھماکے مغربی کابل میں ہوئے جو شیعہ اکثریتی علاقہ ہے جسے گزرے سالوں کے دوران داعش کئی مرتبہ نشانہ بنا چکا ہے۔

وزارت تعلیم کی ترجمان نجیبہ آریان نے رائٹرز کو بتایا کہ یہ لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے ایک مشترکہ ہائی اسکول ہے جس میں تین شفٹوں میں تعلیم دی جاتی ہے اور اسکول کی دوسری شفٹ طالبات کے لیے مختص ہے۔

انہوں نے بتایا کہ زخمیوں میں زیادہ تر طالبات ہیں۔

افغانستان میں یورپی یونین مشن نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ کابل میں دشت برچی کے علاقے میں دہشت گردی کا حملہ قابل مذمت اقدام ہے۔

انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر اسکول میں لڑکیوں کو نشانہ بنانے کا مقصد افغانستان کے مستقبل پر حملہ ہے۔

افغان صدر اشرف غنی نے حملے کا الزام طالبان پر عائد کیا۔

مزید پڑھیں: امریکا نے افغان استحکام کیلئے ہمسایہ ممالک ‘بالخصوص پاکستان' سے مدد مانگ لی

اشرف غنی نے کہا کہ طالبان اپنی ناجائز جنگ اور تشدد کو بڑھا کر ایک بار پھر یہ ظاہر کر چکے ہیں کہ وہ ناصرف موجودہ بحران کو پرامن طریقے سے پر حل کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں بلکہ وہ صورتحال کو پیچیدہ بھی بنانا چاہتے ہیں۔

پاکستان کا اظہار مذمت

پاکستان نے افغانستان کے دارالحکومت کابل کے ایک اسکول میں حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔

پاکستان نے کابل کے ایک اسکول میں حملوں کی مذمت کرتے ہوئے حکومت اور افغانستان کے عوام سے دلی تعزیت کی ہے۔

دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق پاکستان نے زخمیوں کی جلد صحتیابی کے لیے دعا کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ دکھ کی اس گھڑی میں پاکستان دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے کی جدوجہد میں افغان بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہے اور پاکستان، افغانستان میں امن، خوشحالی اور ترقی کے لیے اپنا تعاون جاری رکھے گا۔

یاد رہے کہ پچھلے سال طالبان اور امریکہ نے 20 سالہ جنگ کے خاتمے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب 11 ستمبر 2001 کو نیویارک میں القاعدہ کے حملوں کے بعد امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر فوج کشی کردی تھی۔

اس حملے کا الزام القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن پر عائد کیا گیا تھا اور امریکا کا کہنا تھا کہ طالبان حکومت اسامہ بن لادن کو تحفظ فراہم کررہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: طالبان کے حملے میں 7 فوجی ہلاک

اس معاہدے میں طے پایا تھا کہ طالبان کی جانب سے سیکیورٹی کی گارنٹی فراہم کرنے کے بدلے امریکا وہاں سے اپنی تمام فوج واپس بلا لے گا۔

اس معاہدے میں یہ بھی طے پایا تھا کہ طالبان افغانستان کی حکومت سے امن مذاکرات کریں گے، ان مذکرات کا آغاز گزشتہ سال ہوا تھا لیکن اس کے بعد سے یہ تعطل کا شکار ہیں۔

غیر ملکی افواج پر طالبان کے حملوں میں بڑے پیمانے پر کمی واقع ہوئی ہے لیکن وہ افغان حکومت کے دستوں کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔

گذشتہ ماہ امریکا نے کہا تھا کہ وہ فوج کے انخلا کی تاریخ یکم مئی سے بڑھا کر 11 ستمبر کررہا ہے جس پر طالبان نے متنبہ کیا تھا کہ اس اقدام کے معاہدے پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں