ہماری تحریروں سے بہت سے لوگوں کے منہ کا مزا خراب ہوجاتا ہے، اس لیے ہم نے سوچا کہ میٹھی عید پر کیوں نہ بس میٹھی میٹھی پیاری پیاری باتیں لکھی جائیں۔ تو ہم آپ کے لیے کچھ میٹھے ذائقوں کی ترکیبیں لائے ہیں لیکن ہم نے ایسی ترکیب لڑائی ہے کہ ان میٹھوں کے لیے آپ کو کچھ کرنا نہیں پڑے گا۔

لیجیے ہمارے پیش کردہ میٹھوں سے منہ میٹھا کیجیے۔

سوجی کا حلوہ

اسے سوجی کا حلوہ اس لیے بھی کہتے ہیں کہ جس مہمان کے سامنے اسے میٹھے کے نام پر رکھیں اس کا منہ سوج جاتا ہے، لیکن دراصل یہ سوجی سے بنتا ہے اس لیے اسے سوجی کا حلوہ کہتے ہیں۔ اس حلوے کی اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ یہ نہایت عجلت اور خراب معیشت میں بھی آسانی سے بن جاتا ہے۔

اس کی برق رفتاری کا یہ عالم ہے کہ یہ ہماری وفاقی کابینہ میں تبدیلی سے بھی تیزی سے تیار ہوجاتا ہے اور کم خرچ اتنا کہ غریب تر پاکستانی بھی وزیرِاعظم کی تقریر میں خوش خبریاں سُن کر خوشی میں بنا سکتا ہے۔ اس لیے موجودہ معاشی حالات میں یہی میٹھا جی کو بھاتا ہے۔ سوجی کا حلوہ بنانا بہت آسان ہے۔ اتنا آسان کہ اس کی ترکیب آپ کو بھی پتا ہوگی ہم بتاکر کیوں شرمندہ کریں۔

لڈو

مسلم لیگ اور ایم کیو ایم کی طرح لڈو بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ جیسے موتی چور کے لڈو، بیسن کے لڈو، تِل کے لڈو اور دل میں پھوٹنے والے لڈو۔ ایک وقت میں ایک ہی قسم کا لڈو بنانا چاہیے اگر تمام اقسام کے لڈو ایک ساتھ بناکر مہمان کے سامنے سجا دیے تو لگے گا آپ نے لڈو نہیں بنائے عمران خان صاحب نے کابینہ بنائی ہے یا پی ایس ایل کے لیے ٹیمیں بنائی گئی ہیں۔

لڈو بنانے سے پہلے آپ کو یہ طے کرنا پڑے گا کہ کون سا والا لڈو بنانا ہے اگر لڈو خراب ہوگئے تو آپ یہ سوچ کر پچھتاتی رہیں گی کہ 'لڈو کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے' اس لیے ترکیب دفع کریں مٹھائی کی دُکان سے لڈو خرید لائیں۔ یاد رکھیں کہ حکومت ہو یا لڈو خود بناکر پچھتانا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔

ہَپ ہَپ والا میٹھا

جی جی، یہ وہی 'میٹھا میٹھا ہَپ ہَپ، کڑوا کڑوا تُھو تُھو' والا میٹھا ہے۔ یہ میٹھا کھانا بہت مشکل ہے۔ اسے کھاتے ہوئے بڑی ترکیب سے میٹھا ہَپ ہَپ اور کڑوا تُھو تُھو کرنا پڑتا ہے، ورنہ ذرا سی غلطی سے آپ کڑوا ہَپ ہَپ اور میٹھا تُھو تُھو کرسکتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے گَنّا دانتوں سے چھیل کر کھاتے ہوئے چھلکے تھوکے اور گنے چوسے جاتے ہیں۔

پڑھیے: عیدی کس کو اور کیا دی جائے؟

گَنّے سے یاد آیا شوگر کین جیسا ہی سلوک بعض شوگر مل مالکان سے بھی کیا جاتا ہے۔ خیر ہمیں کیا، ہم تو میٹھوں کی ترکیبیں لکھ رہے ہیں۔ تو ترکیب یہ ہے کہ کسی بھی میٹھے میں کچھ کڑوا ملادیں، اور کھانے کی میز پر رکابیوں، پلیٹوں، پیالوں اور چمچوں کے ساتھ اگال دان بھی اس ہدایت کے ساتھ رکھ دیں کہ بھیا! کڑوا اس میں تُھو تُھو کرنا۔ اس پکوان کا فائدہ یہ ہے کہ کھانے والا اسی جھنجھٹ میں پڑا رہتا ہے کہ لقمے سے مٹھاس اور کڑواہٹ کو کیسے الگ کیا جائے، اس جدوجہد میں وہ ذائقے پر غور ہی نہیں کرتا۔

ٹوٹ بٹوٹ کی کھیر

یہ کھیر پکانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں، یہ پوری انسانی تاریخ میں صرف ایک بار ٹوٹ بٹوٹ ہی نے پکائی ہے۔ یہ کھیر کسی سیاسی اتحاد کی طرح ہوتی ہے جو بہت سے لوگ مل کر پکاتے ہیں۔

صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کی نظم 'ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی' سے پتا چلتا ہے کہ یہ کھیر پکانے کا عمل خالہ، پھوپھی، امّی، ابّا، خالو، بھائی، بہنوں کی اجتماعی کوششوں سے مکمل ہوا تھا، پھر بھی انجام یہ ہوا کہ 'کھیر کسی کے ہاتھ نہ آئی' چنانچہ طے پایا کہ یہ ایک دو بندوں کے بس کی بات نہیں، اور کُل ملا کے بات یہ ہوئی کہ 'تم سے نہ ہوپائے گا' پھر ہم کیوں بلاوجہ اس کھیر کی ترکیب بتا کر اپنا اور آپ کا وقت ضائع کریں!

ٹیڑھی کھیر

ہم نے بہت کوشش کی کہ اس کھیر کی ترکیب مل جائے لیکن ناکامی ہوئی۔ ہمارا خیال ہے کہ جس طرح ہمارے خیال میں کھڑے مسور کی دال وہ مسور کی دال ہوتی ہے جو کھڑے ہوکر پکائی جائے، اسی طرح ٹیڑھی کھیر یا تو پتیلی ٹیڑھی کرکے پکائی جاتی ہوگی یا خود ٹیڑھے ہوکر پکاتے ہوں گے، ممکن ہے صرف منہ ٹیڑھا کرکے پکائی جانے والی کھیر نے یہ نام پایا ہو۔

پڑھیے: سیاستدان فلمی مکالموں کے کوزے میں

دفع کریں ٹیڑھی کھیر کو، یہ ٹیڑھی کھیر ہے، آپ سیدھے سیدھے وہی سیدھی سادی کھیر پکالیں جو پکاتی رہی ہیں، اور اس کی ترکیب تو آپ کو پتا ہی ہوگی۔

شیر خرما

اس پکوان کا ہمیں نام ہی عجیب لگتا ہے، اب آپ ہی بتائیے 'خرما' یعنی کھجور کا شیر سے کیا جوڑ۔ خیر جوڑ توڑ ہونے میں کیا دیر لگتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ نہ کھجور کا درخت جُھک سکتا ہے نہ شیر پیڑ پر چڑھ سکتا ہے پھر دونوں میں جوڑ توڑ کیسے ہو؟

البتہ شہباز اُڑ کر شیر کی خاطر یہ فریضہ انجام دے سکتا ہے۔ مگر میٹھے میں دونوں کی یک جائی پھر بھی سمجھ میں نہیں آئی۔ ممکن ہے صحیح لفظ شعر خرما ہو اور شعر بگڑ کر شیر ہوگیا۔ اگر ایسا ہے تو آپ یہ ڈش نہ بنائیں کیونکہ اس کے لیے وزن کا خیال رکھنا ہوگا۔ سو یہ پکوان بھائی ساحر لودھی ہی بناسکتے ہیں۔ ابھی ابھی پتا چلا کہ یہ جنگل والا شیر ہے نہ شاعر والا شعر، یہ شیر بہ معنی دودھ ہے۔ یعنی یہ ڈش دودھ میں کھجور ملاکر بنتی ہے۔ دودھ میں ملاوٹ آپ کا نہیں گوالے کا کام ہے اور جس کا کام اسی کو ساجھے، لہٰذا یہ ڈش بھی رہنے دیں۔

ریوڑیاں

ریوڑی بنانے سے زیادہ اس کا بانٹنا مشکل ہے کیونکہ ذرا سی بے احتیاطی سے ریوڑیاں اپنوں کے ساتھ غیروں میں بھی بٹ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ فرض اندھے ہی بخوبی انجام دے سکتے ہیں، اندھے سے مراد بصارت سے محروم افراد نہیں تعصب میں اندھے ہوجانے والے لوگ ہیں۔

پڑھیے: کھانا نہ پکانے کی ترکیبیں

جب ریوڑیاں بانٹ ہی نہیں سکتے تو بنانے سے کیا فائدہ۔ یوں کریں کہ آپ حکومتِ سندھ سے ریوڑیاں بانٹنے کا طریقہ سمجھ لیں پھر ہم آپ کو ریوڑی بنانے کی ترکیب بھی بتادیں گے۔

تبصرے (1) بند ہیں

محمد احمد May 15, 2021 10:01pm
دلچسپ مضمون۔ سیاسی صورتحال کے تڑکے نے مزید شگفتگی پیدا کی۔ تاہم "شیر خرما" کا عنوان لکھاری اور ایڈیٹر دونوں کی نظر ثانی کا طالب ہے۔ یہ جنگل کا شیر نہیں بلکہ فرہاد والا جوئے شیر ہے۔ زیر کے ساتھ شیر مطلب دودھ