گوانتاناموبے جیل سے 73 سالہ 'بے گناہ' پاکستانی قیدی کی رہائی منظور

اپ ڈیٹ 18 مئ 2021
ن کے وکیل نے مذکورہ پیش رفت سے آگاہ کیا—فوٹو: اے پی
ن کے وکیل نے مذکورہ پیش رفت سے آگاہ کیا—فوٹو: اے پی

کیوبا میں امریکا کی بدنام زمانہ جیل گوانتاناموبے میں 16 برس سے قید اور حراستی مرکز کے سب سے عمر رسیدہ پاکستانی قیدی سیف اللہ پراچہ کی رہائی کی منظوری دے دی گئی۔

غیر ملکی خبررساں ادارے 'اے پی' کے مطابق ان کی وکیل نے مذکورہ پیش رفت سے آگاہ کیا۔

مزیدپڑھیں:برطانیہ میں گوانتاناموبے کے سابق قیدی گرفتار

سیف اللہ پراچہ کی وکیل شیلبی سلیوان بیلس نے بتایا کہ ان کے مؤکل کو القاعدہ سے تعلق رکھنے کے شبہ میں گرفتار کیا گیا لیکن اس پورے عرصے کے دوران ان پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوسکا۔

انہوں نے بتایا کہ قیدیوں کے نظر ثانی بورڈ نے ان کے ساتھ دو دیگر افراد کو بھی تمام الزامات سے بری کردیا۔

سیف اللہ پراچہ کی وکیل نے کہا کہ نوٹی فکیشن میں فیصلے کی تفصیل فراہم نہیں کی گئی اور صرف یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ سیف اللہ پراچہ امریکا کے لیے 'مسلسل خطرہ نہیں رہے'۔

تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ سیف اللہ کی رہائی یقینی ہے لیکن قیدیوں کے نظر ثانی بورڈ کا فیصلہ ان کی وطن واپسی کے لیے اہم ہے اور اس ضمن میں دونوں ممالک کی حکومتیں سیف اللہ کی ملک واپسی کے لیے معاہدہ کریں گی۔

یہ بھی پڑھیں: ابو زبیدہ کا گوانتا نامو جیل میں تشدد کے خلاف گواہی سے انکار

امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے کہا تھا کہ وہ حراستی مرکز کو بند کرنے کی کوششیں دوبارہ شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور یہ عمل سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے روک دیا تھا۔

سیف اللہ پراچہ کی وکیل نے کہا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ اگلے کئی مہینوں میں انہیں وطن واپس لایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی انہیں واپس چاہتے ہیں اور ہماری سمجھ بوجھ یہ ہے کہ ان کی واپسی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

پینٹاگون کے ترجمان نے فوری طور پر اس کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

علاوہ ازیں 2002 میں حراست میں لیے گئے یمنی نوجوان عثمان عبد الرحیم عثمان کو بھی گوانتاناموبے سے نجات مل گئی۔

ان کے وکیل بیت جیکب نے عثمان کو فون کرکے مطلع کیا۔

مزیدپڑھیں: 'کراچی کاٹیکسی ڈرائیور13سال سے گوانتاناموبے میں'

سیف اللہ پراچہ جو امریکا میں ہی رہائش پذیر اور نیو یارک سٹی میں جائیداد کی مالک تھے اور پاکستان میں ایک مالدار تاجر تھے۔

امریکی حکام نے الزام لگایا تھا کہ وہ القاعدہ کا ایک 'سہولت کار' ہے انہوں نے 11 ستمبر کے حملے میں مالی مدد فراہم کی تھی۔

سیف اللہ پراچہ کا مؤقف تھا کہ وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ القاعدہ سے تھے اور دہشت گردی میں ملوث ہونے سے انکار کرتے رہے۔

امریکا نے سیف اللہ پراچہ کو 2003 میں تھائی لینڈ سے حراست میں لیا اور ستمبر 2004 سے انہیں گوانتانامو میں قید رکھا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں