اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔


چین کے بارے میں اتنا تو سب ہی جانتے ہیں کہ وہاں گوگل، فیس بک اور ٹوئٹر نہیں چلتے لیکن اس کے علاوہ مزید کچھ نہیں جانتے، جانتے ہیں تو اسے سمجھتے نہیں ہیں۔

چین آنے سے قبل ہمارا بھی چینی انٹرنیٹ کے بارے میں علم اتنا سا ہی تھا۔ ہم نے سوچا کوئی بات نہیں۔ یہ پلیٹ فارم تو ایک وی پی این کی مار ہیں، جیسے یہاں وی پی این کنیکٹ کرتے ہیں ویسے ہی وہاں بھی کنیکٹ کرلیں گے۔ اس کے بعد گوگل بھی چلے گا، فیس بک بھی اور ٹوئٹر بھی۔

ہم نے فوراً ایک وی پی این ایپلیکیشن ڈاؤن لوڈ کرلی۔ اسے دو چار بار چلا کر پریکٹس بھی کرلی۔ آسان سی تھی۔ ایک بٹن دبانے پر وی پی این کنیکٹ ہوجاتا تھا، کُل ملا کر 5 سے 7 سیکنڈ لگتے تھے۔ اس کے علاوہ ایک ایپ اسٹور اور ٹرانسلیشن ایپ بھی ڈاؤن لوڈ کرلیں۔ بس اب ہم چین جانے کے لیے تیار تھے۔

ہم نے بیجینگ ایئرپورٹ پہنچتے ہی اپنا فون نکالا تاکہ ایئر پورٹ کا فری وائی فائی کنیکٹ کرکے گھر والوں کو خیریت سے پہنچنے کی اطلاع دے سکیں۔ پہلا جھٹکا تو وہیں لگ گیا۔ وائی فائی استعمال کرنے کے لیے موبائل نمبر سے رجسٹریشن ضروری تھی، ہمارا پاکستانی سِم کارڈ تو بند ہوچکا تھا اور چینی نمبر ہم اگلے دن ہی خرید سکتے تھے۔

چین میں گوگل، فیس بک اور ٹوئٹر نہیں چلتے—رائٹرز
چین میں گوگل، فیس بک اور ٹوئٹر نہیں چلتے—رائٹرز

خیر، ٹیکسی کروا کے یونیورسٹی پہنچے۔ اگلے دن سِم کارڈ بھی خرید لیا۔ یونیورسٹی کا انٹرنیٹ چند روز تک ملنا تھا، تب تک ہمیں سِم کا انٹرنیٹ ہی استعمال کرنا تھا۔ اس وقت واٹس ایپ چین میں بلاک نہیں تھا۔ چین نے 2017ء کے بعد واٹس ایپ کو بھی بلاک کردیا۔ واٹس ایپ تو ہم استعمال کرلیتے تھے لیکن فیس بک اور ٹوئٹر کے لیے ہمیں پہلے وی پی این کنیکٹ کرنا پڑتا تھا جو اپنے آپ میں ایک کام تھا۔ ایپ کھلنے میں آدھا منٹ لگا دیتی تھی، پھر وی پی این کنیکٹ کرنا الگ مسئلہ۔ کبھی کبھار تو اسٹیٹس کنیکٹنگ پر ہی رُک جاتا، یا کنیکٹ ہوتے ہی فوراً ڈس کنیکٹ ہوجاتا تھا۔

اگر آپ کبھی چین آئیں اور ہماری طرح وی پی این کا مفت ورژن استعمال کرنے کی کوشش کریں تو آپ کو بھی ان ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تاہم، وی پی این کے خریدے ہوئے یا پیڈ ورژن بہتر کام کرتے ہیں۔ اس دفعہ ہم نے بھی ایک وی پی این خریدا ہوا ہے، بالکل ٹھیک چلتا ہے۔ اس کی گواہی ہمارے سوشل میڈیا پر موجود دوست احباب دے سکتے ہیں۔ وہ تو وہاں سے آف لائن ہوجاتے ہیں لیکن ہم ہمیشہ آن لائن ہی رہتے ہیں۔

غیر ملکیوں کے علاوہ بہت سے چینی بھی وی پی این کا استعمال کرتے ہیں۔ اب تک کے ہمارے تجربے کے مطابق چین میں وی پی این استعمال کرنے کا واحد نقصان بس یہ ہے کہ اس دوران کسی چینی ویب سائٹ یا ایپلیکیشن کا استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ وی پی این سے چین میں بند ویب سائٹس اور ایپلیکیشنز تک تو رسائی حاصل ہوجاتی ہے لیکن اس دوران فون میں موجود چینی ایپس کی کارکردگی سست یا بالکل بند ہوجاتی ہے۔

چین کی اچھی بات یہ ہے کہ اگر یہ کسی چیز پر پابندی لگاتا ہے تو اپنے عوام کو اس کا متبادل ضرور فراہم کرتا ہے۔ اسی وجہ سے چینیوں کی ایک بڑی تعداد اپنے ملک میں عائد انٹرنیٹ پر پابندی سے اتنی متاثر محسوس نہیں ہوتی۔ ان کی تمام ضروریات لوکل ویب سائٹس اور ایپلیکیشنز سے پوری ہوجاتی ہیں۔ یہاں گوگل کی جگہ بیدو، فیس بک کی جگہ رین رین، ٹوئٹر کی جگہ ویبو، یوٹیوب کی جگہ یوکو، اور واٹس ایپ کی جگہ وی چیٹ استعمال کیے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ دنیا کی سب سے بڑی ڈیٹنگ ایپ ٹنڈر کی جگہ بھی کئی متبادل چینی ایپس موجود ہیں۔

چین میں ٹوئٹر کی جگہ ویبو استعمال کی جاتی ہے—اے ایف پی
چین میں ٹوئٹر کی جگہ ویبو استعمال کی جاتی ہے—اے ایف پی

وی چیٹ کی بات کریں تو اس کے بغیر چین میں رہنا تقریباً ناممکن ہے۔ وی چیٹ سے میسج اور کال کے علاوہ بھی کئی دیگر کام کیے جاسکتے ہیں، مثلاً آن لائن رقم کی ادائیگی یا ترسیل۔ چین میں ہر دکان اور ہر اسٹور حتیٰ کہ ریڑھی پر بھی موبائل کی مدد سے پیسے ادا کیے جاسکتے ہیں۔

دکاندار نے کاؤنٹر پر اپنے وی چیٹ پے کا کیو آر کوڈ پرنٹ کرکے رکھا ہوتا ہے۔ خریدار اپنے موبائل کی مدد سے کوڈ اسکین کرکے رقم ادا کردیتے ہیں۔ اس کے علاوہ علی پے نامی ایپ سے بھی رقم کی ادائیگی کی جاسکتی ہے۔ حتیٰ کہ اگر کبھی کوئی بھکاری بھی نظر آئے تو اس کے گلے میں بھی اس کے وی چیٹ یا علی پے کا کیو آر کوڈ لٹکا ہوتا ہے۔ یعنی اگر کسی کے پاس بھیک دینے کے لیے کیش موجود نہیں ہے تو وہ کوڈ کو اسکین کرکے آن لائن بھیک بھی دے سکتا ہے۔

اسی طرح آپ نے گھر بدلنا ہو یا نئے گھر میں سامان منتقل کرنے کے لیے گاڑی منگوانی ہو، کھانا آرڈر کرنا ہو یا کسی برانڈ کی نئی کلیکشن دیکھنی ہو، قریبی سنیما میں مووی کا ٹکٹ خریدنا ہو یا گھر جانے کے لیے ہوائی جہاز کا ٹکٹ، بس وی چیٹ کھولیں، یہ سب کام اسی ایپ میں دو چار بٹن دبانے پر آسانی سے کیے جاسکتے ہیں۔

کیا آپ یہ سب کام پاکستان میں اتنی ہی آسانی سے کرسکتے ہیں؟ نہیں نا۔ اب کہیں جاکر فوڈ پانڈا، اوبر اور کریم جیسی ایپس کی مدد سے کچھ سہولت میسر آئی ہے لیکن کبھی کبھار یہ سہولت سر درد بھی بن جاتی ہے۔

اگر کسی کے پاس بھیک دینے کے لیے کیش موجود نہیں ہے تو وہ کوڈ کو اسکین کرکے آن لائن بھیک بھی دے سکتا ہے—ٹوئٹر
اگر کسی کے پاس بھیک دینے کے لیے کیش موجود نہیں ہے تو وہ کوڈ کو اسکین کرکے آن لائن بھیک بھی دے سکتا ہے—ٹوئٹر

وی چیٹ سے میسج اور کال کے علاوہ بھی کئی دیگر کام کیے جاسکتے ہیں، مثلاً آن لائن رقم کی ادائیگی یا ترسیل—اے ایف پی
وی چیٹ سے میسج اور کال کے علاوہ بھی کئی دیگر کام کیے جاسکتے ہیں، مثلاً آن لائن رقم کی ادائیگی یا ترسیل—اے ایف پی

انٹرنیٹ پر آزادی اظہارِ رائے کی بات کریں تو یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ تاہم، انٹرنیٹ کو کون قید کرسکا ہے۔ ویبو پر لوگ معاشرتی رویوں پر بھی تنقید کرتے ہیں اور حکومتی پالیسیوں پر بھی۔ یہاں بھی وہی کچھ ہوتا ہے جو پاکستانی ٹوئٹر پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں کے باوجود ایسا نہیں ہے کہ یہاں کسی نے کچھ لکھا اور وہاں اسے پولیس اٹھا کر لے گئی۔ چینی حکومت ہر بات پر ایکشن لینے لگے تو اسے بقیہ کام کرنے کا وقت بھی نہ ملے۔

چینی بھی سینسرشپ سے بچنے کے دسیوں طریقے جانتے ہیں۔ چائنیز ٹوئٹر یعنی ویبو پر روزانہ 300 ملین سے زیادہ پوسٹس ڈیلیٹ کی جاتی ہیں۔ وی چیٹ پر بھی بہت سا مواد سینسر ہوتا رہتا ہے۔ چین میں انٹرنیٹ پر ہونے والی سینسرشپ پر بہت تحقیق ہوئی ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ تحقیق بھی چینی پروفیسر ہی کرتے ہیں۔

چین میں بے شک انٹرنیٹ نے ہماری زندگی بہت آسان بنا رکھی ہے لیکن پاکستان پہنچتے ہی جب موبائل سگنل پکڑتا ہے اور فون میں موجود ہر ایپ سے نوٹیفکیشن آنا شروع ہوتے ہیں تو جو خوشی اس وقت ہوتی ہے، اس کا شمار الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم، ایئرپورٹ سے گھر جانے کے لیے جب ٹیکسی آرڈر کرو اور آگے سے کوئی رائیڈ قبول نہ کرے یا قبول کرنے کے بعد کینسل کردے تب دل کرتا ہے کہ واپس جہاز میں بیٹھوں اور چین پہنچ جاؤں۔

تبصرے (0) بند ہیں