ملک میں 16.4 فیصد گھرانوں کو غذائی عدم تحفظ کا سامنا

اپ ڈیٹ 27 مئ 2021
سروے میں شہری اور دیہی آبادی کے ایک لاکھ 76 ہزار 790 گھرانوں کا احاطہ کیا گیا—فائل فوٹو: رائٹرز
سروے میں شہری اور دیہی آبادی کے ایک لاکھ 76 ہزار 790 گھرانوں کا احاطہ کیا گیا—فائل فوٹو: رائٹرز

اسلام آباد: حکومتی سروے کے مطابق ملک کے 16.4 فیصد گھرانے خوراک کے شدید یا معتدل غذائی عدم تحفظ کا سامنا کررہے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ادارہ شماریات نے پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرڈز میژرمنٹ (پی ایس ایل ایم) سروے برائے سال 20-2019 کا انعقاد کیا جس میں سہولیات اور خدمات کے ذریعے تعلیم، صحت اور غذائی عدم تحفظ کے حوالے سے معلومات اکٹھی کی گئیں۔

سروے میں شہری اور دیہی آبادی کے ایک لاکھ 76 ہزار 790 گھرانوں کا احاطہ کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:ملک میں مزید ایک کروڑ افراد کے خطِ غربت سے نیچے جانے کا اندیشہ

اس سلسلے میں گزشتہ 12 مہینوں میں پیسے، غذائیت سے بھرپور کھانے اور فاقوں کے معاملات کا جائزہ لے کر دیکھا جاتا ہے کہ کتنے گھرانے خوراک کے عدم تحفظ سے دوچار ہیں اور اس معلومات کی بنیاد پر عدم تحفظ کی شرح نکالی جاتی ہے۔

—سلمان خان
—سلمان خان

سال 2004 سے یہ پی ایس ایل ایم سروے کا 12واں دور تھا جو پائیدار ترقی کے اہداف کے تناظر میں صوبائی/ ضلعی سطح پر ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کے لیے کیا جاتا ہے۔

سروے رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں شدید اور درمیانے درجے کا غذائی عدم تحفظ 29.84 فیصد، اس کے بعد سندھ میں 18.45 فیصد، پنجاب میں 15.16 فیصد اور خیبرپختونخوا میں 12.75 فیصد ہے۔

ضلع کے لحاظ سے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ بلوچستان میں درمیانے سے شدید درجے کا غذائی عدم تحفظ بارکھان میں 48.8 فیصد اور سب سے کم 4.59 فیصد گوادر میں ریکارڈ کیا گیا۔

مزید پڑھیں: آئندہ 2 سال تک پاکستان میں غربت میں اضافے کا امکان ہے، عالمی بینک

اسی طرح سندھ میں یہ شرح سب سے زیادہ 34.04 فیصد کشمور اور سب سے کم 7.66 فیصد خیر پور میں ریکارڈ کیا گیا۔

پنجاب میں شدید یا درمیانے درجے کا غذائی عدم تحفظ 28.81 فیصد قصور اور سب سے کم 4.18 فیصد اوکاڑہ میں ریکارڈ کیا گیا۔

خیبرپختونخوا میں غذائی تحفظ کی بلند ترین شرح 32.43 فیصد ٹانک میں اور سب سے کم 3.94 فیصد شانگلہ میں ریکارڈ کی گئی۔

سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ 10 سال سے زائد عمر والی وہ آبادی جس نے کبھی اسکول میں داخلہ لیا ہو اس کی شرح 20-2019 میں 60 فیصد تھی جبکہ 15-2014 میں یہ شرح 62 فیصد اور اسلام آباد میں سب سے زیادہ 85 فیصد دیکھی گئی۔

سروے کے مطابق سال 20-2019 کے دوران ملک بھر میں 32 فیصد بچے اسکول نہیں گئے جبکہ شہری علاقوں میں یہ شرح 22 فیصد اور ان کے مقابلے میں دیہی علاقوں میں ایسے بچوں کی تعداد زیادہ یعنی 37 فیصد ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لنگر سے بھوک اور غربت کیوں نہیں مٹ سکتی؟

پنجاب میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی شرح سب سے کم یعنی 24 فیصد جبکہ بلوچستان میں 47 فیصد ہے۔

ضلعی اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پنجاب کے دو تہائی اضلاع میں 25 فیصد سے بھی کم بچے اسکول نہیں جاتے جبکہ چکوال اور نارووال میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی شرح سب سے کم یعنی 9 فیصد اور راجن پور میں سب سے زیادہ یعنی 48 فیصد ہے۔

سندھ کے اضلاع میں کراچی وسطی میں یہ شرح سب سے کم 21 فیصد جبکہ ٹھٹہ میں سب سےزیادہ 71 فیصد ہے۔

خیبرپختونخوا کے ضلع ایبٹ آباد میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی سب سے کم شرح 9 فیصد ہے اور سب سے زیادہ ضلع مہمند میں 57 فیصد ہے۔

اسی طرح بلوچستان میں نوشکی میں 23 فیصد بچے اسکول نہیں جاتے جبکہ شہید سکندر آباد میں یہ تعداد سب سے زیادہ 76 فیصد ہے۔

سال 14-2013 میں ملک کی شرح خواندگی 58 فیصد تھی جبکہ 15-2014 اور 20-2019 کے سروے میں شرح خواندگی 60 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں