نوآبادیاتی دور میں نسل کشی، جرمنی نے نمیبیا سے معافی مانگ لی

اپ ڈیٹ 28 مئ 2021
نسلی امتیاز ثابت کرنے کے لیے نسل کشی میں مرنے والوں کے ڈھانچوں پر تجربات کیے گئے— فوٹو: اے ایف پی
نسلی امتیاز ثابت کرنے کے لیے نسل کشی میں مرنے والوں کے ڈھانچوں پر تجربات کیے گئے— فوٹو: اے ایف پی

جرمنی نے نوآبادیاتی دور میں قبضے کے دوران نمیبیا میں نسل کشی کو باضابطہ طور پر تسلیم کرتے ہوئے مافی مانگ لی ہے اور مالی امداد کا اعلان کیا ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق 20ویں صدی کے اوائل میں جرمن نوآبادیاتی دور میں ہریرو اور ناما کے ہزاروں افراد کا قتل عام کیا گیا۔

مزید پڑھیں: روانڈا کی نسل کشی میں اپنی 'ذمے داری' تسلیم کرتے ہیں، فرانسیسی صدر

جرمن وزیر خارجہ ہیکو ماس نے جمعہ کو اس قتل عام کا ادراک کرتے ہوئے نمیبیا کو امداد کی پیشکش کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جرمنی کی تاریخی اور اخلاقی ذمے داری کے طور پر ہم نمیبیا اور قتل عام کا نشانہ بننے والے افراد کے اہلخانہ سے معافی کے طلبگار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ متاثرہ افراد کو پہنچنے والی اذیت کو تسلیم کرتے ہوئے جرمنی، نمیبیا کے لیے 1.34ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کرتا ہے۔

یہ رقم آئندہ 30 سال کے دوران نمیبیا کے انفرااسٹرکچر ، نظام صحت، تربیتی پروگراموں پر صرف کی جائے گی جس سے معاشرے کو فائدہ پہنچے گا۔

جرمن وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ہم آج ان واقعات کو باضابطہ طور پر نسل کشی قرار دیتے ہیں اور نوآبادیاتی دور میں اٹھائے گئے اقدامات پر کسی رعایت کے بغیر بحث ہونی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: روانڈا میں بدترین نسل کشی کے 25 برس مکمل

نمیبیا کی حکومت کے ترجمان نے اے ایف پی سے گفتو کرتے ہوئے کہا کہ جرمنی جانب سے غلطی تسلیم کیا جانا صحیح سمت کی جانب پہلا قدم ہے۔

جمعہ کو جاری کیا گیا بیان جرمنی اور نمیبیا کے درمیان پانچ سالہ مذاکرات اور بات چیت کا نتیجہ ہے جہاں اس سے قبل 1884 سے 1915 تک نمیبیا نوآبادیاتی دور میں جرمنی کے قبضے میں رہا۔

تاریخ دانوں کا کہنا تھا کہ اس وقت جرمن جنوب مغربی افریقہ کے نام سے مشہور علاقے میں ہونے والی اس نسل کشی کو بھلا دیا گیا ہے جبکہ کچھ تاریخ دان اسے 20ویں صدی کی پہلی نسل کشی قرار دیتے ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق 1904 سے 1908 کے درمیان اس علاقے میں رہنے والے 65ہزار سے 80 ہزار افراد کو قتل کردیا گیا تھا اور 20 ہزار میں سے 10ہزار ناما قبیلے کے افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔

جرمنی نے اس علاقے پر 1884 سے حکومت کی لیکن پہلی جنگ عظیم میں یہ علاقہ ان کے ہاتھ سے چلا گیا تھا۔

1920 کے بعد یہ علاقہ جنوبی افریقہ انتظامیہ کے زیر انتظام آ گیا تھا اور 1990 تک انہی کے زیر انتظام رہا ، یہاں تک کہ نمیبیا نے آزادی حاصل کر لی۔

مزید پڑھیں: روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پر میانمار کے خلاف عالمی عدالت میں کیس

اس مسئلے پر نمیبیا اور جرمنی کے درمیان مذاکرات کا آغاز 2015 میں ہوا تھا اور 2018 وہ ڈھانچے واپس کر دیے گئے تھے جنہیں نسلی امتیاز ثابت کرنے کے لیے کیے گئے تجربات میں استعمال کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ یہ پیشرفت ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب گزشتہ روز ایک اور یورپی ملک فرانس میں ہونے والے نسل کشی میں اپنی ذمے داری تسلیم کی تھی۔

7 اپریل 1994 کو ہوتو قبیلے کی جانب سے توتسی افراد کی نسل کشی کا آغاز ہوا جو 100 دن تک جاری رہی اس میں 8 لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

4 جولائی کو توتسی قبیلے کی جماعت آر پی ایف کے سپاہیوں نے دارالحکومت کگالی پر قبضہ کرکے 100 دن بعد اس نسل کشی کا خاتمہ کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں