خیبرپختونخوا اسمبلی کے باہر جامعات میں اصلاحات اور ختم کیے گئے الاؤنسز کی بحالی کے لیے احتجاج کرنے والے اساتذہ پر پولیس نے آنسو گیس فائر کیے اور لاٹھی چارج کیا۔

پولیس کا کہنا تھا کہ احتجاج میں شریک اساتذہ سمیت 8 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور انہیں روڈ بلاک کرنے کے الزام پر گرفتار کر لیا گیا ہے۔

پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن (پوٹا) کے صدر فضل ناصر بھی گرفتار اساتذہ میں شامل ہیں جنہیں مبینہ طور پر پولیس تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔

پشاور میں صوبے بھر کی سرکاری جامعات کے ملازمین اپنے مطالبات کے حق میں سراپا احتجاج ہیں، جس میں اساتذہ سمیت کلاس فور اور کلاس تھری ملازمین کی بڑی تعداد شامل ہے۔

اساتذہ اور ملازمین کا احتجاج پانچ روز سے جاری ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ جامعات کے ملازمین کی تنخواہوں سے الاونسز کٹوتی کا نوٹی فکیشن واپس لیا جائے۔

خیبر پختونخوا اسمبلی کے سامنے احتجاج کے دوران پولیس نے اساتذہ پر لاٹھی جارج کی اور پھر مظاہرین کی گرفتاریاں شروع کردیں جبکہ روڈ کو ہر قسم کے ٹریفک کے لیے کھولے جانے کے بعد مظاہرین دوبارہ سامنے آگئے۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور: یونیورسٹی کی طالبات کا اساتذہ کی جانب سے ‘ہراساں‘ کیے جانے کے خلاف احتجاج

ایس ایس پی آپریشنز یاسر آفریدی نے کہا کہ شہریوں کو پر امن احتجاج کا پورا پورا حق ہے، احتجاج پر امن اور ایک طرف ہو تو ہم کچھ نہیں کہتے۔

ان کا کہنا تھا کہ احتجاج سے اگر شہریوں کو تکلیف ہو تو قانون حرکت میں آئے گا، پڑھے لکھے لوگوں نے راستہ بند کر دیا تھا، ہسپتالوں کو جانے والے راستے بند تھے جس سے عوام کو تکلیف کا سامنا تھا۔

ایس ایس پی آپریشنز نے کہا کہ کارروائی کرکے احتجاج کو ختم کردیا گیا اور ٹریفک بحال کردی گئی ہے۔

آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشنز (فوپواسا) کے صدر ڈاکٹر شاہ عالم نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے تحت صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) بنائی جائے، پنجاب اور سندھ میں صوبائی ایچ ای سی موجود ہے تو پھر ہمارے صوبے میں کیوں نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے ہائر ایجوکیشن کا بجٹ بڑھانے کے بجائے کم کردیا ہے، موجودہ حکومت نے ہائر ایجوکیشن کا بجٹ 114 اورب روپے سے کم کرکے 64 ارب روپے تک پہنچا دیا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر شاہ عالم کا کہنا تھا کہ جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے اس وقت تک ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔

قبل ازیں مظاہرین پشاور یونیورسٹی میں جمع ہوئے اور وہاں سے خیبر پختونخوا اسمبلی کی طرف جانے والے خیبر روڈ کو بند کرکے مظاہرہ کیا۔

یونیورسٹی کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے جامعات کو ہدایت کی تھی کہ اخراجات کم کریں اور اپنے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے مالی انتظام کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ مجوزہ اصلاحات پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا اور دو روز قبل ہی یونیورسٹی کے سینڈیکیٹ کے اجلا سمیں بجٹ منظور کرلیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ دوسری جانب پیوٹا نے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا اور وہاں سے 14 روز کے لیے اسٹے آرڈر جاری ہوا، جس کے باعث حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا۔

صوبائی حکومت کے ترجمان کامران بنگش کا کہنا تھا کہ بعض عناصر صوبائی حکومت کی پالیسیوں کو احتجاج کرکے غلط شکل دے رہے ہیں کیونکہ یہ صورت حال جامعات کی انتظامیہ کی جانب سے لیے گئے 'غلط فیصلوں اور ایچ ای سی کی غیر ذمہ داری' کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'حکومت محدود وسائل کے باوجود ماضی میں جامعات کے تحفظ کے لیے سامنے آئی تھی اور اب بھی کررہی ہے اورمستقبل میں بھی کرے گی لیکن جامعات کو اپنی معاملات درست کرنے کی ضرورت ہے'۔

کامران بنگش کا کہنا تھا کہ 'اگر مالی حوالے سے اصلاحات پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا ہے، تو حالات مشکل ہوجائیں گے'۔

یاد رہے کہ رواں برس کے اوائل میں سرکاری اسکولوں کے سیکڑوں اساتذہ نے پے اسکیل بڑھانے کے لیے خیبر روڈ پر احتجاج کیا تھا۔

سرکاری اساتذہ نے ایلیمنٹری اور سیکنڈی ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے سینئر عہدیداروں سے مذاکرات کے بعد احتجاج ختم کیاتھا، اجلاس میں محکمہ تعلیم نے ان کے مطالبات ماننے کے لیے اصولی طور پر اتفاق کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں