ہم یہود مخالف نہیں بلکہ صیہونیت اور ظلم کے خلاف ہیں، صدر مملکت

اپ ڈیٹ 01 جون 2021
صدر مملکت نے کہا کہ دنیا کے مظالم کا سامنا کرنے ایک طریقہ اپنی معیشت اور معاشرت کو طاقتور کرنا ہے—تصویر: اے پی پی
صدر مملکت نے کہا کہ دنیا کے مظالم کا سامنا کرنے ایک طریقہ اپنی معیشت اور معاشرت کو طاقتور کرنا ہے—تصویر: اے پی پی

صدر مملکت عارف علوی نے کہا ہے کہ یہودیت اور مسیحیت کا قرآن میں بھی ذکر ہے، ہم یہود یا مسیحیوں کے خلاف نہیں بلکہ اس قوم کے خلاف ہیں جو کشمیریوں اور فلسطینیوں سمیت کہیں بھی انسانیت کے خلاف ظلم و استحصال کرے۔

اقتصادی تعاون تنظیم کی پارلیمانی اسمبلی کی جنرل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ کے ایک بیان پر لیبل لگایا گیا کہ آپ یہودیوں کے خلاف بات کررہے ہیں لیکن اس حوالے سے بالکل واضح رہنا چاہیے کہ جب ہم فلسطینیوں پر ظلم کی بات کرتے ہیں تو وہ یہود مخالف بات نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے لیبل لگا کر دنیا کو دکھایا جاتا ہے اور ہولوکاسٹ یاد دلایا جاتا ہے جبکہ ظلم بھی وہ قوم کررہی ہے جو خود اس قسم کے مظالم سے گزری ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم یہود مخالف نہیں ہیں بلکہ صیہونیت مخالف، اسرائیل مخالف اور نسلی عصبیت کے خلاف ہیں جو نسلی تعصب جنوبی افریقہ سے کہیں زیادہ سنگین ہے اور کشمیر میں بھی اب یہ کیفیت پیدا ہوتی جارہی ہے، ہم نسل کشی کے خلاف ہیں۔

صدر مملکت نے کہا کہ اگر گزشتہ 60 سے 70 برس میں کوئی قوم مشکلات سے گزری ہے تو وہ مسلم امہ ہے جس کی لاکھوں جانیں عالمی طاقتوں کی دشمنی میں قربان ہوئیں۔

یہ بھی پڑھیں:مسئلہ فلسطین کے مستقل حل کے بغیر مشرق وسطیٰ میں قیام امن ممکن نہیں، وزیر خارجہ

انہوں نے کہا کہ دنیا کے فورمز اس وقت اقتدار سے عاری اور اپنے مفادات، خواہشات اور ضروریات کی بنیاد پر اکٹھا ہوتے ہیں جس میں اخلاقیات کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت دنیا کو انسانیت والی لیڈر شپ ضرورت ہے، جیسا انقلاب نبی کریم ﷺ لے کر آئے جس میں ماحولیات، انسانیت کو اہمیت دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ اخلاقیات، انصاف اور انسانیت مسلمان معاشرے کی بنیاد بنی تھی جیسے جیسے مسلمان معاشرے نے اس بنیاد کو چھوڑا تو دیگر اقوام نے ہمارے ساتھ وہ کیا جو ترقی یافتہ قومیں کمزوروں کے ساتھ کرتی ہیں۔

صدر مملکت نے کہا کہ جب ناموس رسالت ﷺ کے حوالے سے دنیا کو کہا جائے کہ اظہار رائے کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں تکلیف پہنچائی جائے تو دنیا ہماری بات نہیں سنتی کیوں کہ ہم کمزور ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دنیا میں دہرے معیار ہیں، یورپ میں ہولوکاسٹ کے حوالے سے لوگوں کو بات کرنے سے روکا جاتا ہے اور جو اسے چیلنج کرتا ہے اسے سزا دی جاتی ہے کیوں کہ وہ ان کے ضمیر پر بھاری ہے ان کے لیے تکلیف دہ ہے لیکن جب ہم کہتے ہیں کہ نبی ﷺ جو ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہیں ان کے خلاف بات کرنے سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے تو دنیا ہماری نہیں سنتی۔

مزید پڑھیں:’مسلم امہ کو درپیش چیلنجز کا حل اتحاد میں مضمر ہے‘

ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ مسلمان دہشت گردی سے گزرے ہیں اور آزادی حقیقی تحریکوں کو بھی دہشت گردی کے تناظر سے دیکھا گیا، بھارت دنیا کو مقبوضہ کشمیر اور اسرائیل فلسطین کی آزادی کی تحریک کو دہشت گردی کہتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں خود بھی مسائل ہیں جس میں عدم برداشت سب سے بڑا مسئلہ ہے، جو قوموں کو ترقی نہیں کرنے دیتی۔

صدر مملکت نے کہا کہ ہم نے انتہا پسندی کا سامنا کیا ہے جس میں مذہب کی تشریح میں شدت پسندی اختیار کی گئی اور دنیا کو اسلام کا وہ رخ دکھایا گیا جو حقیقت سے دور تھا۔

انہوں نے کہا کہ دوسری جانب کورونا وائرس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں مسلمانوں کے خلاف سوچ اور تعصب پایا جاتا ہے اس کا تحریروں، پہنچ، سوشل میڈیا، ٹیلیویژن اور اچھے کاموں کے ذریعے مقابلہ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اسلاموفوبیا صرف اس ذکر کی بات نہیں کہ ہمیں تکلیف پہنچتی ہے بلکہ اس کی بنیاد پر قوموں کی پالیسیز بن جاتی ہیں اور اگر کبھی انہیں احساس ہوتا بھی ہے تو اس کا ذکر نہیں ہوتا۔

یہ بھی پڑھیں: مسلم اُمّہ میں جمہوریت کا فقدان کیوں؟

صدر مملکت کا کہنا تھا کہ کووِڈ 19 کا پاکستان نے جس نظم و ضبط کے ساتھ مقابلہ کیا اس کی بڑی اہمیت ہے ایک جذبہ یہ تھا کہ لاک ڈاؤن کر کے لوگوں کے روزگار کو ختم نہیں کیا جائے گا اور اس میں اللہ نے برکت دی۔

انہوں نے کہا کہ جو اقوام ترقی کرتی ہیں ان میں تنظیم کی اہمیت موجود ہے، مغربی یورپ میں ادارے بنے وہاں ترقی ہوئی جبکہ مشرقی یورپ کئی صدیوں تک پیچھے رہا۔

صدر مملکت کا کہنا تھا کہ ہمیں اقتصادی تعاون تنظیم کے توسط سے آپس میں تعلقات بہتر بنانے چاہیے اور تجارت کے بھی بہت سے مواقع موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس پلیٹ فارم میں شامل ممالک آپس میں دوستی کو فروغ دیں اور ترقی کے راستوں میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کے مظالم کا سامنا کرنے ایک طریقہ اپنی معیشت اور معاشرت کو طاقتور کرنا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں