لاہور: قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف شہباز شریف نے حکومت کو معاشی کارکردگی ظاہر کرنے کے لیے اعداد و شمار میں مبینہ ہیر پھیر کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق شہباز شریف نے کہا کہ 'اکاؤنٹنٹ جنرل آف پاکستان کی جانب سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ایک ارب 40 کروڑ روپے کے اجرا پر اعتراض نے سرکاری معاشی اعداد و شمار کی قلعی کھول دی ہے۔

انہوں نے یہ بات ایک رپورٹ کے تناظر میں کہی جس میں کہا گیا تھا کہ ایف بی آر نے ریونیو سے ٹیکس ریفنڈ کی رقم الگ نہیں کی جس کی وجہ سے وفاقی حکومت کی منتقلیوں کو رپورٹ کرنے کی ذمہ دار اتھارٹی نے اعتراض کیا۔

یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف کی گرینڈ ڈائیلاگ کی تجویز پر مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی مشاورت

شہباز شریف نے کہا کہ اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان مطالبہ کر رہے ہیں کہ حکومت، ٹیکس ریفنڈ کی مد میں کی گئی ادائیگیوں کو ریونیو کے نقصان کے طور پر ظاہر کرے۔

صدر مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ اس بات کے انکشاف، کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اسی طریقے سے گزشتہ برس بھی ایک کھرب روپے کی مالی ایڈجسٹمنٹس کی تھیں، نے ظاہر کردیا ہے کہ حکمران جماعت مسلسل اعداد و شمار کے ہیر پھیر میں ملوث ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت ٹیکس ریونیو میں اضافہ دکھانے کے لیے گرانٹس کے استعمال کے حربے اپنا کر عوام کو دھوکا دے رہی ہے۔

قائد حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ حکومت قومی خزانے اور ریونیو کے ساتھ بھی وہی کر رہی ہے جو اس نے گندم اور چینی کی پیداوار کے اعداد و شمار کے ساتھ کیا۔

مزید پڑھیں: ملک کو معاشی پالیسی کے ’سنجیدہ جائزے‘ کی ضرورت ہے، اسحٰق ڈار

ساتھ ہی انہوں نے خبردار بھی کیا کہ اگر 'ہیر پھیر والے' اعداد و شمار کی بنیاد پر پالیسیاں اور منصوبوں کی منصوبہ بندی کی جائے تو 'بحران در بحران' درپیش ہوسکتا ہے۔

اپوزیشن لیڈر نے اس بات سے بھی خبردار کیا کہ بظاہر وفاقی ٹیکس کلیکشن کے حجم سے کم حصہ صوبوں کو دینے کی وجہ سے ہیرا پھیری والے اعداد و شمار وفاق اور وفاقی اکائیوں کے مابین عدم بھروسے اور تنازع کا سبب بن سکتے ہیں، جو اچھی چیز نہیں ہے۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ 'کیا حکومت، وفاق اور وفاقی اکائیوں کو ایک دوسرے کے خلاف کرنا چاہتی ہے'۔

انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک جانب حکومت ٹیکس ریونیو کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام ہوگئی ہے، دوسری جانب یہ متنازع اعداد و شمار پیش کرتی ہے۔


یہ خبر 7 جون 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں