آئی جی پنجاب کا پولیس اہلکاروں کی ذہنی صحت کی پروفائلنگ کا حکم

اپ ڈیٹ 07 جون 2021
پنجاب پولیس کے سربراہ نے دماغی طور پر پریشان ہونے والوں کو فیلڈ اسائنمنٹ پیش نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ - پنجاب پولیس:فائل فوٹو
پنجاب پولیس کے سربراہ نے دماغی طور پر پریشان ہونے والوں کو فیلڈ اسائنمنٹ پیش نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ - پنجاب پولیس:فائل فوٹو

راولپنڈی: پنجاب پولیس کے سربراہ نے پولیس اہلکاروں کی ذہنی صحت کی جانچ کے لیے مستقل پروفائلنگ اور ڈرگ ٹیسٹنگ کرنے جبکہ دماغی طور پر مسائل کا شکار رہنے والوں کو فیلڈ اسائنمنٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ حال ہی میں پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) انعام غنی کی زیر صدارت ایک اجلاس میں کیا گیا جس میں علاقائی، شہر اور ضلعی پولیس افسران نے شرکت کی۔

ریجنل پولیس آفیسر (آر پی او) راولپنڈی ڈویژن امیر احمر، سی پی او راولپنڈی اور اٹک، جہلم اور چکوال کے ڈی پی اوز بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔

شرکا میں سے ایک نے ڈان کو بتایا کہ پولیس کی ملازمت انتہائی تناؤ کا شکار ہوتی ہے اور وہ دماغی صحت کی خرابی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: پولیس تشدد کا نشانہ بننے والا شخص بغیر لائسنس پستول رکھنے کے جرم میں گرفتار

انہوں نے کہا کہ پولیس اہلکاروں کے خودکشی کے حالیہ واقعات سامنے آئیں ہیں لہذا اہلکاروں کی ذہنی صحت پر نظر رکھنی ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس اہلکاروں کی ذہنی صحت خراب ہونے کی وجہ ملازمت کے حوالے سے دباؤ، معاشرتی و معاشی مسائل اور منشیات کا استعمال ہوسکتا ہے۔

پولیس عہدیدار کا کہنا تھا کہ 'ذہنی مسائل کا شکار اہلکاروں کے ٹیسٹ کے علاوہ منشیات کے ٹیسٹ بھی کروائے جائیں گے'۔

ایک اور سینئر پولیس افسر، جنہیں تربیت فراہم کرنے کا وسیع تجربہ ہے، نے انکشاف کیا کہ محکمہ پولیس میں ذہنی صحت ایک بہت بڑا مسئلہ بن کر سامنے آیا ہے جس کی جانچ پڑتال کرنے کی ضرورت ہے خصوصا سینئر افسران جو خود اس کا شکار ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'جب بھی انہیں تعینات کیا جاتا ہے تو ان کی ذہنی صحت اور اہلیت کی جانچ ہونی چاہیے، پولیس دباؤ میں کام کرتی ہے، پولیس کے اعلیٰ عہدیداران کو اپنے ماتحتوں کے مسائل کو دھیان میں رکھنے کے بعد بڑے فیصلے کرنے چاہئیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ کم رینک کے اہلکاروں کو علاج کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ وہ زیادہ کام کرتے ہیں، انہیں ملازمت کے دباؤ اور نیند کی کمی اور بعض اوقات خاندانی مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن پولیس کا کوئی بھی اعلیٰ افسر ان کی ذاتی پریشانیوں پر غور نہیں کرتا، جو ان کے لیے ذہنی مسائل کا باعث بنتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور میں پولیس افسر کا ایس او پیز پر عمل نہ کرنے والے شہریوں پر ڈنڈے سے تشدد

ہر پولیس افسر کو قائدانہ کردار ادا کرنا ہوتا ہے لہذا اسے اپنے ماتحت کام کرنے والوں کی پریشانیوں کو دیکھنا چاہیے۔

افسر نے پولیس اہلکاروں کے لیے مستقل صلاحیت میں اضافے کے کورسز کو مستقل بنیادوں پر چلانے اور سینئر پولیس افسران کے رویہ میں تبدیلیوں کی نگرانی کرنے کا بھی مشورہ دیا۔

واضح رہے کہ اسی طرح کی مشقیں 2014 میں راولپنڈی میں باڈی گارڈ کی جانب سے اسلام آباد میں سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل اور محافظ اسکواڈ کی جانب سے جون 2015 میں دو بھائیوں کے قتل کے بعد بھی کی گئی تھیں۔

اس سے قبل 2014 میں اس وقت کے آئی جی پی نے پولیس افسران کے رویوں کا اندازہ لگانے کے لیے 7 خواتین ماہر نفسیات کی خدمات حاصل کی تھیں۔

تاہم اس مشق سے پولیس کے اعلیٰ افسران کا اپنے ماتحت اہلکاروں اور عوام کے ساتھ رویہ تبدیل کرنے میں مدد نہیں مل سکی تھی۔

تازہ ترین اقدام میں انعام غنی نے ڈویژنل پولیس سربراہوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے ماتحت اہلکاروں کی باقاعدگی سے ذہنی صحت سے متعلق پروفائلنگ کو یقینی بنائیں اور طبی طور پر نااہل قرار دیئے جانے والے افراد کے کیسز کو میڈیکل بورڈ کے پاس بھیجیں۔

تبصرے (0) بند ہیں