پولیس تشدد کا نشانہ بننے والا شخص بغیر لائسنس پستول رکھنے کے جرم میں گرفتار

اپ ڈیٹ 04 جون 2021
پولیس کے مطابق رضی اللہ سے دوران تلاشی پستول برآمد ہوا جس کے لیے وہ کوئی لائسنس نہیں دکھا سکا— فائل فوٹو: ڈان
پولیس کے مطابق رضی اللہ سے دوران تلاشی پستول برآمد ہوا جس کے لیے وہ کوئی لائسنس نہیں دکھا سکا— فائل فوٹو: ڈان

گزشتہ سال پولیس کی تحویل میں تشدد کا نشانہ بننے کی ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد خبروں کی زینت بننے والے رضی اللہ عرف عامر تحکالے کو پولیس نے ایک بار پھر پشاور میں بغیر لائسنس کی پستول رکھنے کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔

انہیں بدھ کے روز پشتخارا تھانے کی حدود میں واقع تاج آباد کے علاقے سے گرفتار کیا گیا تھا، اس کے بعد ایف آئی آر درج کی گئی جس میں بتایا گیا کہ پولیس نے گشت دوران ایک 'مشکوک شخص' کو روکا۔

مزید پڑھیں: پشاور: پولیس کا شہری پر برہنہ کرکے تشدد، ملوث اہلکار گرفتار

ایف آئی آر کے مطابق تلاشی لینے پر اس شخص سے ایک پستول برآمد ہوا جس کے لیے وہ کوئی لائسنس نہیں دکھا سکا، حکام نے بتایا کہ اس کے بعد پولیس نے رضی اللہ کو گرفتار کر کے پولیس اسٹیشن منتقل کردیا۔

جمعرات کو انہیں جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا جنہوں نے بغیر لائسنس والا پستول رکھنے پر 500 روپے جرمانہ عائد کیا اور اس کے بعد رضی اللہ کو رہا کردیا گیا۔

ادھر ، گرفتاری کے بعد رضی اللہ کی مبینہ طور پر قابل اعتراض تصاویر مختلف واٹس ایپ گروپس پر گردش کرنے لگی تھیں۔

پچھلے سال پولیس کی جانب سے افغان شہری رضی اللہ کو برہنہ کر کے تشدد کرنے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرس ہونے کے بعد شدید طوفان برپا ہوا تھا اور جماعت اسلامی کے ساتھ ساتھ خیبر پختون خوا کی سول سوسائٹی نے بھی پولیس کے اس رویے کے خلاف احتجاج کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں پولیس تشدد سے ہلاکت کا تیسرا واقعہ، مقدمے میں 6 اہلکار نامزد

وہ مبینہ طور پر نشے کے زیر اثر تھے اور پولیس افسران کو گالیاں دے رہے تھے جس کے بعد انہیں مشنیات رکھنے کے جرم میں دیگر دو افراد کے ہمراہ حراست میں لیا گیا تھا۔

19 سیکنڈ کی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا تھا کہ دو پولیس اہلکار نیم برہنہ رضی اللہ کو ایک کمرے میں چلنے پر مجبور کر رہے ہیں جبکہ دو دیگر افراد بھی ان کے پیچھے چلتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں، 36 سیکنڈ کی دوسری ویڈیو میں پولیس اہلکار کو انہیں ویڈیو کے لیے پوز دینے پر مجبور کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

سوشل میڈیا پر صارفین کے غم و غصے کے بعد سٹی پولیس نے ایک نوٹیفکیشن جاری کرکے چار پولیس اہلکاروں کی معطلی کا اعلان کیا تھا، بعدازاں پولیس نے تین پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا تھا۔۔

گزشتہ سال کے آخر میں خیبرپختونخوا پولیس نے چاروں پولیس اہلکاروں کو جوڈیشل کمیشن کی تحقیقات کی سفارش پر نوکری سے برطرف کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: گومل یونیورسٹی کے طلبہ پر پولیس کا تشدد 'شرمناک عمل' قرار

ملازمت سے برخاست اہلکاروں میں یکہ توت پولیس اسٹیشن کے سب انسپکٹر اور سابق ایس ایچ او عمران الدین، سب انسپکٹر اور تحصیل تھانہ صدر کے سابق ایس ایچ او شہریار احمد، تھانہ صدر پولیس کے کانسٹیبل توصیف عالم اور ناسٹیبل نعیم خان شامل تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں