اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔


جہاز پر جانے سے پہلے تمام عملے کی ملاقات لازمی ہوتی ہے، جس میں سینئر فرد باقی تمام عملے کو جہاز کے مختلف حصوں میں کام کرنے کے لیے احکامات جاری کرتا ہے۔

ہنگامی حالات میں کس نے کہاں کیا کرنا ہے؟ یہ سب معاملات طے کیے جاتے ہیں۔ کیسے کرنا ہے؟ وہ سب عملے کو ٹریننگ میں سکھا دیا گیا ہوتا ہے۔ اس تمام عمل کو 'بریفنگ' کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد جہاز پر پہنچ گئے اور معمول کے مطابق فرائض انجام دینے لگے۔

اور پھر وہ لمحہ آیا جب میں پہلی مرتبہ اس 7 فٹ لمبے اور ڈھائی فٹ چوڑے دراز نما خانے میں آرام کرنے کے لیے داخل ہوا تو قبر تو یاد آئی ساتھ میں کسی سخت جرم کی پاداش میں قیدِ تنہائی کاٹنے والے مجرموں کی دڑبہ نما جیل بھی یاد آئی کہ کمر سیدھی کرکے بیٹھنا اس ڈبے میں بھی ناممکن تھا۔ لیکن خیر بقول شخصے نیند تو سولی پر بھی آجاتی ہے لہٰذا 10 منٹ بعد میں دنیا و مافیہا سے بے خبر تھا اور میرے خوابوں میں خرگوش تھے۔

اچھا ڈرامائی تشکیل ویسے کچھ زیادہ ہوگئی۔ میں دراصل بات کر رہا ہوں بے حد لمبی پرواز کے دوران فضائی میزبانوں کے آرام کے واسطے بنائے گئے 'کریو بنکرز (crew bunkers) کی۔ یہ مختلف جہازوں میں مختلف تعداد میں موجود ہوتے ہیں۔ شدید لمبی پرواز، جس کو انگریزی میں 'لانگ ہال' (Long Haul) کہا جاتا ہے، کے دوران عملے کو کچھ گھنٹے (جن کا ہر ایئرلائن اپنے حساب سے تعین کرتی ہے) آرام کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ لمبائی اور چوڑائی میں یہ اتنا ہی ہوتا ہے کہ ایک بندہ بس اس میں لیٹ سکے۔

کریو بنکر
کریو بنکر

حفاظتی اقدامات کو یہاں بھی نظر انداز نہیں کیا جاتا بلکہ یہاں تو زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔ مثلاً کسی وجہ سے روشنی کے انتظام میں خلل واقع ہوجائے تو ٹارچ موجود ہوتی ہے۔ آگ بجھانے کے لیے آلات اور آکسیجن کی کمی ہوجانے کی صورت میں آکسیجن ماسک کی سہولت بھی موجود ہوتی ہے۔ اور تو اور ایک بیلٹ بھی گدے پر موجود ہوتا ہے، اس لیے کہ آپ نیند کے دوران ادھر ادھر نہ نکل جائیں۔ مزید یہ کہ ہنگامی حالت میں فرار ہونے کے لیے راستہ بھی موجود ہوتا ہے۔

بعض ساتھیوں کو وہاں بالکل نیند نہیں آتی۔ ہانگ کانگ میں اماراتی اور شکاگو میں بھارتی فضائی عملے سے بات چیت کے دوران جب یہ معاملہ زیرِ بحث آیا تو یہی بات معلوم ہوئی کہ کافی لوگوں کو بنکر میں نیند نہیں آتی۔ اگر موسم خراب ہو اور جہاز مسلسل ہل رہا ہو یا آپ کو تنگ جگہ کا خوف (کلاسٹرو فوبیا) لاحق ہے تو نیند تو کیا وہاں کچھ دیر ٹھہرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔

زیادہ تر عملے کی کوشش پھر بھی یہی ہوتی ہے کہ اس وقفے کو غنیمت جانے اور کچھ دیر سوجائے تاکہ منزل پر پہنچنے کے بعد 'جیٹ لیگ' (Jet Lag) کا تھوڑا بہت مقابلہ کیا جاسکے۔ جی ہاں یہ عملے کا وہ امتحان اور آزمائش ہے جو اسے اپنی تمام پیشہ ورانہ زندگی میں درپیش رہتے ہیں۔ انسان کے جسم میں ایک گھڑی نصب ہے۔ وہ اس کو اپنے روزمرہ معمولات کے مطابق آراستہ کرتا ہے، اور پھر اسی کے حساب سے چلتا ہے۔ سونے جاگنے کا وقت مقرر ہوجاتا ہے۔ کھانا پینا اسی وقت کے حساب سے ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ تقاضائے قدرت کے اوقات بھی منظم ہوجاتے ہیں۔

اب اگر آپ ان اوقات کو درہم برہم کردیں تو کیا ہوگا؟ آپ اس سوال کا بالکل صحیح جواب سوچ رہے ہیں۔ جی ہاں آپ ایک فضائی میزبان میں تبدیل ہوجائیں گے۔ اس گھڑی کے اوقات بار بار بدلنے سے جو اثرات جسم پر ہوتے ہیں ان کی فہرست طویل ہے۔ بے وقت بھوک اور نیند تو عام سی بات ہوجاتی ہے۔ جسم سست پڑجاتا ہے، اور ہر وقت آرام کا طالب رہتا ہے۔ کچھ کرنے کو دل نہیں کرتا یہاں تک کہ جسمانی اعضا کی حرکات پیمانہ منفی کو پہنچ جاتی ہیں۔

عام طور پر دنیا کے تمام فضائی عملے کی جسمانی گھڑی یعنی 'باڈی کلاک' اس وقت کے مطابق چلتی ہے جس کو عرفِ عام میں 'جی ایم ٹی' کہا جاتا ہے۔ ایک غیر محسوس طریقے سے تمام فضائی میزبان اور پائلٹس، عام زندگی میں جی ایم ٹی کے حساب سے چلنا شروع کردیتے ہیں۔ جی ایم ٹی یعنی گرین وچ مین ٹائم وہ وقت ہے جو زمین کے طول البلد، یا میریڈیئن کی صفر ڈگری لائن پر ماپا جاتا ہے۔ یہ لندن کے نواح میں واقع گرین وچ نامی علاقے میں موجود اولڈ رائل آبزرویٹری سے ہوتا ہوا قطب شمالی سے جنوب کی سمت چلتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ساری دنیا میں پروازیں اسی وقت یعنی جی ایم ٹی کے مطابق چلتی ہیں۔

گرین وچ رائل آبزرویٹری کے باہر لگی شیفرڈ گیٹ کلاک جو جی ایم ٹی کے مطابق وقت دکھاتی ہے
گرین وچ رائل آبزرویٹری کے باہر لگی شیفرڈ گیٹ کلاک جو جی ایم ٹی کے مطابق وقت دکھاتی ہے

اب مثال کے طور پر پاکستان کا معیاری وقت، جی ایم ٹی کے حساب سے 5 گھنٹے آگے ہے۔ چنانچہ رات کے 12 بجے یعنی صفر جی ایم ٹی پر پاکستان میں صبح کے 5 ہوں گے۔ میں نے اکثر اپنے ساتھیوں کو یہ کہتے سنا کہ یار مجھے رات کو 3 بجے نیند آتی ہے اور دوپہر ایک ڈیڑھ بجے تک آنکھ کھلتی ہے۔ اب آپ جی ایم ٹی کے حساب سے دیکھیں تو سب لوگ رات 10 بجے سوتے ہیں اور صبح 8 بجے جاگ جاتے ہیں۔ اب یہ سب 'جی ایم ٹی کے حساب سے' بالکل صحیح اوقات ہیں لیکن پاکستان میں آپ کو لوگ زومبی، اّلو، چوکیدار اور نہ جانے کون کون سے القابات سے نوازیں گے کہ دیکھو یار نہ اس کے سونے کا وقت صحیح ہے نہ جاگنے کا۔

انہی معاملات پر کچھ سال پہلے میں نے کیا خوب کہا ہے، عرض کیا ہے:

گھڑیاں بھی ہیں تنگ مجھ سے

ہر وقت ہی وقت بدلتا ہوں

اب سفر ہی میری منزل ہے

میں جس دنیا میں رہتا ہوں

چلیں یہ سب تو یہاں تک ٹھیک ہے کہ آج کل دیر سے سونا ایک عام بات ہے۔ لیکن 'جیٹ لیگ' وہ بلا ہے کہ جب آپ اس کے مدِمقابل آتے ہیں تو یہ آپ کو 'اضطرابات النوم' یعنی 'سلیپ ڈس آرڈر' یا Insomnia کے اس درجے پر لے جاتا ہے کہ وہاں سے واپسی اس صورت ہی ممکن ہوتی ہے کہ جتنے گھنٹے آپ اپنے وقت سے آگے یا پیچھے جاتے ہیں اتنا ہی وقت اس جگہ پر گزاریں جہاں آپ پہنچے ہیں۔

پاکستان سے کینیڈا مسلسل پرواز کا دورانیہ زیادہ سے زیادہ 14 سے 16 گھنٹے کا ہے۔ شروع میں تو پرواز کا اتنا وقت سُن کر ہی خون خشک ہوگیا۔ ویسے یورپ جاتے ہوئے 7 سے 8 گھنٹے لگ ہی جاتے ہیں، جو کہ کافی لوگوں کے لیے بہت زیادہ ہیں، لیکن ہمیں اتنے وقت کی عادت تو ہوگئی تھی۔ اب معاملہ یہ تھا کہ پرواز کا وقت یورپ سے دگنا ہوگیا تھا۔ میں ہمیشہ کوشش کرتا تھا کہ اس پرواز پر نہ جانا پڑے مگر سال میں ایک بار جانا ہی پڑتا تھا۔ کینیڈا کا شہر ٹورنٹو وقت کے حساب سے جی ایم ٹی سے 5 گھنٹے پیچھے ہے اور گرمیوں میں 4 گھنٹے کردیا جاتا ہے بوجہ ڈے لائٹ سیونگ۔

اب ملاحظہ فرمائیں کہ پاکستان سے آپ کو 10 گھنٹے کا فرق پڑگیا۔ ہوٹل پہنچتے ہی نیند تو آجاتی ہے کیونکہ آپ کچھ بھی نہیں تو 18 سے 19 گھنٹے کی نوکری کرکے پہنچتے ہیں۔ مگر رات کو 3 بجے سب اٹھ کر بیٹھے ہوتے ہیں کیونکہ پاکستان میں دوپہر کے 12 بج رہے ہوتے ہیں۔ اب اصولاً تو ٹورنٹو میں 10 دن رہنا بنتا ہے لیکن کیا کریں کہ بہت تلخ ہیں بندہ مزدور کے اوقات۔

ایک دن کے بعد ہی واپسی کی تیاری کرنی پڑتی ہے اور آپ 10 گھنٹے آگے کے ٹائم زون میں واپس آجاتے ہیں۔ اب خیر سے آپ کے باڈی کلاک میں 20 گھنٹوں کی گڑبڑ ہوچکی ہے۔ اب آپ کو دوپہر ایک بجے نیند آئے گی اور رات 3 بجے آپ کی صبح ہوگی۔ اور ہاں، اکثر اوقات خواہ مخواہ موڈ خراب ہوجانے کی عادت آپ کو بونس میں ملے گی۔ لہٰذا اگر آپ کے جان پہچان والے لوگوں میں کوئی فضائی میزبان ہے تو یہ سب باتیں آپ ان سے ملنے جلنے کے معاملات میں ملحوظِ خاطر رکھیں۔

یہ نوکری سخت زیادہ اور نرم کم ہے۔ دُور کے ڈھول واقعی بہت سہانے ہوتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں