لکھاری محقق ہیں۔
لکھاری محقق ہیں۔

بڑے شہروں میں رہنے والوں کے لیے پہاڑ حسین مناظر کے ساتھ ساتھ خاموشی اور سکون کے احساسات جگاتے ہیں۔ ہم ان مسحور کن مناظر کے درمیان رہنے والے افراد کی زندگیوں کو بھی ان مناظر سے ہی قیاس کرتے ہیں۔ لیکن جب ان جگہوں کا دورہ کریں تو جلد ہی یہ بات معلوم ہوجاتی ہے پہاڑوں کے ان باسیوں کی زندگی سخت اور مشکلات سے پُر ہے۔

پہاڑوں پر رہنے والوں کا مکمل انحصار یا تو معمولی زراعت، مزدوری یا پھر سیاحت یا کوہ پیمائی کے لیے آنے والوں کی خدمت پر ہوتا ہے۔ یہاں سرکاری ملازمت کے مواقع بہت کم ہیں۔ کئی گھروں میں تو گھر کے افراد مختلف کام کرکے گزر بسر کرتے ہیں۔

میں نے اپنے اسکردو کے سفر کے دوران ضلع شگر اور گھانچے کے جن افراد سے بات چیت کی انہوں نے اپنے علاقوں میں درپیش کئی چیلنجز کا ذکر کیا۔ ان چیلنجز میں روزگار کے مواقعوں کی کمی، پانی کی قلت، سڑکوں کا ناقص نظام، ناکافی معاشرتی انفرااسٹرکچر، ماحولیاتی تبدیلی اور بار بار ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ شامل ہیں۔

کورونا کی وبا سے سال 2020ء میں یہ دونوں اضلاع بُری طرح متاثر ہوئے۔ سیاحت مکمل طور پر بند ہوگئی، ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤس پر تالے لگ گئے اور ملک بھر میں لاک ڈاؤن کے باعث مزدوری کے لیے دوسرے علاقوں میں جانا بھی مشکل ہوگیا۔

شگر اور گھانچے کے لوگ سردیوں میں مزدوری کے لیے کراچی کا رخ کرتے ہیں، اس دوران گھر کی خواتین اور بچوں کے پاس کسی ایک مرد کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ایک بلتی گائیڈ اور ڈرائیور علی حسن شگری نے مجھے بتایا کہ ’اس بار سب سے زیادہ مشکل کوہ پیمائی اور ٹریکنگ کی مہمات منسوخ ہونے سے ہوئی‘۔

مزید پڑھیے: خون جمانے والی ٹھنڈ میں گلگت بلتستان کا ’میفنگ‘ تہوار

اس علاقے میں 8 ہزار میٹر سے زیادہ بلندی والے 4 پہاڑ موجود ہیں۔ ان میں کے ٹو، گیشربرم-1، براڈ پیک اور گیشر برم-2 شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کئی پہاڑ 7 ہزار میٹر سے زیادہ بلند ہیں۔

کورونا سے پہلے یہاں 25 سے 30 بین الاقوامی کوہ پیما ٹیمیں آتی تھیں اور ہر ٹیم میں 8 سے 10 ارکان ہوتے تھے۔ ان میں تقریباً 10 ٹیمیں کے ٹو اور بقیہ ٹیمیں دیگر چوٹیاں سر کرنے جاتی تھیں۔ ہر ٹیم میں پورٹر، ہیلپر، باورچی، لوڈر اور معاونین کی حیثیت میں کم از کم 250 مقامی افراد شامل ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ لاتعداد مقامی اور بین الاقوامی ٹریکنگ پارٹیز بھی دُور دراز کی وادیوں اور قراقرم کے گلیشیئرز کی ٹریکنگ کے لیے آتی تھیں۔ یہ ٹیمیں مقامی بازاروں سے کھانے پینے اور دیگر اشیا کی خریداری کرتی تھیں۔ علی حسن نے مجھے بتایا کہ یہی مقامی لوگوں کا بنیادی ذریعہ معاش تھا۔

گزشتہ سال کے لاک ڈاؤن کے دوران کچھ ہی ہوٹل ایسے تھے جنہوں نے اپنے ملازمین کو آدھی تنخواہ بھی دی ہو۔ مجھے بتایا گیا کہ ہوٹل کی صنعت میں ابتدائی تنخواہ 8 ہزار سے 10 ہزار کے درمیان ہوتی ہے جو چاروں صوبوں کے لیے مختص کم از کم تنخواہ سے بہت کم ہے۔ 10 سال یا اس سے زائد عرصے تک نوکری کرنے کے بعد بھی اکثر ملازمین کنٹریکٹ پر ہی ملازمت کرتے ہیں اور دیگر مراعات سے محروم رہتے ہیں۔ اس علاقے کی نیم خودمختار اور غیر واضح آئینی حیثیت کی وجہ سے ملک میں نافذ کئی قوانین بشمول مزدوروں کے حقوق سے متعلق قوانین گلگت بلتستان میں نافذ نہیں ہیں۔

شاہد کے پاس قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی سے معاشیات میں ماسٹرز کی ڈگری ہے۔ وہ خشک میوہ جات کی ایک چھوٹی سی دکان چلاتا ہے جسے وہ ڈھابہ کہتا ہے۔ اس نے معاشیات کا انتخاب اس لیے کیا تھا کہ وہ کاروبار کرنا چاہتا تھا لیکن ماسٹرز کی ڈگری نے اسے کاروبار سے متعلق بہت کم ہی سکھایا۔ تعلیمی ادارے انٹرپرینیورشپ ٹریننگ فراہم نہیں کرتے ہیں۔ اس نے مجھے بتایا کہ ’اس کے خاندان کے پاس زمین کا جو ٹکڑا ہے اس میں بہت زیادہ پیداوار نہیں ہوتی۔ اگرچہ ہر خاندان کے پاس ہی کچھ نہ کچھ زمین ہوتی ہے جس کا رقبہ 2 کنال (تقریباً 0.25 ایکڑ) سے 10 کنال تک ہوتا ہے لیکن زمینی صورتحال کی وجہ سے یہاں کاشتکاری مشکل ہے۔

اکثر یہ زمینیں ایک ساتھ نہیں ہوتیں بلکہ ٹکڑوں میں بکھری ہوئی ہوتی ہیں۔ پانی کا بنیادی ذریعہ گرمیوں میں گلیشیئر سے حاصل ہونے والا پانی ہے۔ مون سون کا موسم یہاں عموماً خشک رہتا ہے۔ یہاں عموماً گندم، جو اور مکئی اگائی جاتی ہے اور سال میں ایک ہی فصل کاشت جاتی ہے۔

شاہد کے مطابق ’ہمارے پاس وہ ٹیکنالوجی نہیں ہے جس سے پیداوار میں اضافہ کیا جائے‘۔ یہاں پانی ذخیرہ کرنے کی سہولیات بھی بہت کم ہیں۔ جدید ذرائع نہ ہونے کے باعث سردیوں کے موسم میں گھروں کو گرم رکھنے کے لیے لکڑی جلانے پر انحصار کیا جاتا ہے۔ مجھے ایک مقامی شخص نے بتایا کہ ایک گھر میں 80 سے 100 من (3 ہزار سے 3 ہزار 7 سو کلوگرام) تک لکڑی استعمال ہوتی ہے۔

ہوٹل کی واحد خاتون ملازمہ فرح نے مجھے بتایا کہ یہاں بچوں کی تعلیم کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ والدین اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے لیے اپی زمینیں بھی فروخت کردیتے ہیں۔ فرح کی بیٹی راولاکوٹ میں یونیورسٹی آف پونچھ سے ایگریکلچر میں بی ایس کر رہی ہے۔ اسکردو میں تعلیم اور صحت کے شعبے کے علاوہ کسی اور شعبے میں خواتین کی موجودگی معیوب سمجھی جاتی ہے۔ فرح نے 9 سال تک ایک سرکاری اسکول میں عارضی ملازمت کی۔ اسے اس وجہ سے مستقل نہیں کیا گیا کہ وہ 3 لاکھ روپے رشوت نہیں دے سکتی تھی۔ اس نے تدریس کا پیشہ چھوڑ کر اپنے شوہر کی اجازت سے ہوٹل میں ملازمت شروع کردی۔ کئی لوگوں نے یہاں سرکاری نوکریوں کے لیے رشوت لیے جانے کی تصدیق کی۔

بلتستان میں خواتین کی زندگی مردوں، خصوصاً نوجوان مردوں کے مقابلے میں زیادہ مشکل ہے، جن کے پاس موبائل فون اور چمچماتی ہوئی موٹر سائیکلیں ہوتی ہیں۔ وادی بھر میں مجھے دریاؤں، ندیوں اور نالوں کے کنارے خواتین نظر آئیں جو بھاری کمبل، چادریں اور گرم کپڑے دھو رہی تھیں۔ گرمیوں میں خواتین دگنی مشقت کرتی ہیں تاکہ وہ سردیوں کا موسم گزار سکیں۔ کپڑے دھونے کے ساتھ ساتھ وہ لکڑیاں جمع کرتی ہیں، پھلوں کو سکھاتی ہیں، کھیتی باڑی کرتی ہیں اور ساتھ ہی روزمرہ کے گھریلو کام بھی انجام دیتی ہیں۔

مزید پڑھیے: گلگت بلتستان کی سیاسی جدوجہد کی کہانی

بہرحال ایک مثبت پہلو یہاں کی شرح خواندگی ہے جو ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے اور یہاں صنفی مساوات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ اے ایس ای آر کی 2019ء کی رپورٹ کے مطابق یہاں 6 سے 16 سال کی عمر کے 92 فیصد بچے اسکولوں میں داخل ہیں۔ اس کے علاوہ دیہی اضلاع کے 70.8 فیصد گھروں میں موبائل فون اور 22 فیصد گھروں میں کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ موجود ہے۔

ماہرین اس علاقے میں آبپاشی کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کی سہولت، دیگر فصلوں کو متعارف کروانے اور یاک اور ٹراؤٹ کی فارمنگ کی تجویز دیتے ہیں۔ اس علاقے میں آڑو، بادام، سیب، چیری اور شہتوت کی بڑے پیمانے پر پیداوار ہوتی ہے۔ تاہم یہاں پہلوں کے معیار کو برقرار رکھنے کی اور انہیں سکھانے کے لیے مناسب ٹیکنالوجی دستیاب نہیں ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ حالیہ 5 سالہ ترقیاتی پیکج میں سڑکوں کے نظام، صحت سے متعلق انفرااسٹرکچر، پانی اور سورج کی روشنی سے بجلی بنانے کے منصوبوں اور ہنر سکھانے کو ترجیح دینی چاہیے۔


یہ مضمون 10 جون 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں