قومی اسمبلی: حکومت نے کلبھوشن یادیو سے متعلق بل منظور کرالیا

اپ ڈیٹ 11 جون 2021
اپوزیشن نے واک آؤٹ کیا اور تین بار کورم کی نشاندہی کی تاہم چیئرمین نے کی کارروائی جاری رکھی جس پر اپوزیشن نے سخت احتجاج کیا۔ - فائل فوٹو: اے پی پی
اپوزیشن نے واک آؤٹ کیا اور تین بار کورم کی نشاندہی کی تاہم چیئرمین نے کی کارروائی جاری رکھی جس پر اپوزیشن نے سخت احتجاج کیا۔ - فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: حکومت نے حزب اختلاف کے شدید احتجاج اور بائیکاٹ کے دوران قومی اسمبلی کی کارروائی کے رولز معطل کرتے ہوئے 21 قوانین کی منظوری دے دی جس میں متنازع انتخابی (ترمیمی) بل 2020 اور بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو اپیل کا حق فراہم کرنا بھی شامل ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپوزیشن کے اراکین نے واک آؤٹ کیا اور 3 مرتبہ کورم کی نشاندہی کی لیکن ہر مرتبہ اسپیکر نے ایوان کو ترتیب میں قرار دیا اور کارروائی جاری رکھی، جس کی وجہ سے اپوزیشن شور شرابا اور احتجاج کرنے پر مجبور ہوگئی۔

ایک موقع پر اپوزیشن نے ایک تحریک پر اسپیکر اسد قیصر کے رولز کو معطل کرنے کے لیے زبانی ووٹنگ کے فیصلے کو چیلنج کیا جس پر اسپیکر نے فزیکل ووٹ کا حکم دیا اور اپوزیشن کو 101-112 ووٹ سے شکست ہوئی۔

اپوزیشن کے اراکین اسپیکر کی ڈائس کے سامنے جمع ہوئے اور 'مودی کا جو یار ہے غدار ہے' اور 'کلبھوشن کو پھانسی دو' جیسے نعرے لگائے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی احسن اقبال نے نشاندہی کی کہ حکومت نے بھارتی جاسوس کو ریلیف دینے کے لیے بھاری قانون سازی کے ایجنڈے میں اس بل کو شامل کیا۔

رولز کو معطل کرنے کے بعد بل کو ایجنڈے پر لانے کے حکومتی اقدام پر اپوزیشن نے احتجاج کیا۔

اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپوزیشن جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی کہانی تم نے بگاڑی اور مجھے اپوزیشن بینچوں سے پاکستان کی نہیں، ہندوستان کا مؤقف سنائی دے رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی سے کلبھوشن سے متعلق آرڈیننس میں 4 ماہ کی توسیع منظور

ایوان میں عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو مؤثر بنانے کے لیے نظر ثانی کا بل آرڈیننس 2020 منظور کرلیا گیا، بل وفاقی وزیر فروغ نسیم کی جانب سے پیش کیا گیا تھا۔

اس بل کی منظوری کے بعد اب بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سمیت تمام غیر ملکیوں کو فوجی عدالتوں کی سزا کے خلاف اپیل کا حق مل جائے گا۔

وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے اس بل کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل بھارت کے عزائم کے خلاف لائے ہیں، کلبھوشن کو قونصلر رسائی مسلم لیگ (ن) کے دور میں نہیں دی گئی اور اگر ہم یہ قانون نہ لاتے تو بھارت، سلامتی کونسل میں چلا جاتا۔

ان کا کہنا تھا کہ عالمی عدالت انصاف نے واضح طور پر اپیل کا قانون لانے کا حکم دیا تھا اور اگر ہم یہ بل نہ لاتے تو بھارت ہمارے خلاف عالمی عدالت کی توہین کا مقدمہ درج کرواتا۔

اس حوالے سے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کا حق ہے کہ ان کی رائے بھی لی جائے، میں آپ پر تنقید نہیں بلکہ اپیل کر رہا ہوں کہ آپ اپنی طاقت استعمال کریں گے اور رولز کو منسوخ نہیں کریں گے، اگر ہنگامی مسئلہ ہو، قومی سانحہ ہے اور ہمیں کچھ فوری طور پر کرنا ہے تو ہم ضرور کرنے کو تیار ہوں گے لیکن آپ اپنی ذمہ داری نبھائیں، فورم کو صحیح طریقے سے استعمال کریں، کمیٹیوں کو بھی صحیح طریقے سے چلائیں تاکہ ہم عوام کے مسائل حل کر سکیں اور عوام کے لیے زیادہ مصیبت پیدا نہ کریں۔

مزید پڑھیں: قومی اسمبلی اجلاس میں اپوزیشن کا شدید احتجاج

اس موقع پر شاہ محمود قریشی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ یقیناً عوامی جماعتیں ہیں اور عوام کو ریلیف دینے آئے ہیں لیکن اگر عوام کو ریلیف دینے کے لیے ہم گنجائش پیدا کرنا چاہتے ہیں تو مجھے امید ہے کہ آپ اس میں رخنہ نہیں ڈالیں گے اور فراخ دلی سے آگے بڑھیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ اراکین پارلیمنٹ نے رولز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ رولز میں گنجائش نہیں ہے اور آپ رولز کی نفی کر کے کارروائی بڑھا رہے ہیں، وزیر پارلیمانی امور اور وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور نے اس کا مفصل جواب دے دیا ہے کہ رولز میں گنجائش ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزرا نے اس کارروائی کی وجوہات بتائیں کہ ہماری خواہش ہے کہ اس وقت جو قوانین لے کر آئے ہیں ان پر قانون سازی ہو جائے کیونکہ کل بجٹ ہے، اجلاس ہونا ہے اور اس میں بہت سے ایسے قوانین ہیں جن کا مقصد براہ راست عوام کو ریلیف پہنچانا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ فاضل رکن اسمبلی نے کہا کہ بل پر بحث ہونی چاہیے، بالکل ہونی چاہیے لیکن اس حوالے سے دو گنجائشیں ہیں، ایک بل جب مرتب ہوتا ہے تو ایوان میں متعارف کرایا جاتا ہے اور قائمہ کمیٹی کو بھیجا جاتا ہے جہاں اپوزیشن کی نمائندگی موجود ہے، تصور یہ کیا جاتا ہے کہ ہر جماعت کا رکن اپنی جماعت کا نقطہ نظر قائمہ کمیٹی میں لائے گا، اپنا مؤقف پیش کرے گا اور اپنی رائے ریکارڈ کرائے گا، اگر قائمہ کمیٹی میں اس کی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی تو اس حوالے سے خط لکھ کر آگاہ کرے گا لیکن بل کو اکثریت سے ایوان میں پیش کیا جاتا ہے تو وہ آ سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مالی سال 2022 کیلئے ترقیاتی اخراجات میں 40 فیصد اضافے کی منظوری

ان کا کہنا ہے کہ جب بل پیش کیا جاتا ہے اور اگر کسی کو اعتراض ہے تو قانون کے مطابق وہ رکن ترامیم پیش کر سکتا ہے، ترامیم کو آپ ایوان کے سامنے رکھ سکتے ہیں، جو معترض ہوتا ہے، اس کو موقع ملتا ہے کہ وہ ترمیم پر اپنی رائے کا اظہار کرے اور جمہوریت یہ کہتی ہے کہ اکثریت کی بات کو ترجیح دی جاتی ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو یہ جمہوریت کی نفی ہو گی۔

انہوں نے بلاول کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ رکن اسمبلی نے درست کہا کہ مشاورت اور بات چیت کا موقع ملنا چاہیے، آپ نے انتخابی اصلاحات کا حوالہ دیا جن کے وسیع پیمانے پر اثرات مرتب ہوں گے اور تب ہی ہم نے کہا تھا کہ انتخابی اصلاحات پر بائیکاٹ مت کیجیے، ہم نے آپ کو بارہا دعوت دی لیکن آپ آنے کو تیار نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ہم دعوت دیتے ہیں تو آپ آنے کو تیار نہیں ہیں، جب ہم قائمہ کمیٹی میں جاتے ہیں تو آپ اپنا نقطہ نظر ریکارڈ نہیں کراتے، جب ہم اسمبلی میں آتے ہیں تو آپ بات کرنے کی گنجائش نہیں نکالتے، جب ہم اکثریت پوری کرتے ہیں تو آپ واک کر جاتے ہیں، یہ جمہوریت کی روح کی نفی کررہے ہیں۔

واضح رہے کہ وزیر خارجہ کی تقریر کے دوران اپوزیشن خصوصاً پیپلز پارٹی کے اراکین نے احتجاج کرنا شروع کیا اور متعدد مرتبہ تقریر میں خلل ڈالنے کی کوشش کی۔

مزید پڑھیں: سال 22-2021: ترقیاتی منصوبوں پر 2.1 کھرب روپے کے اخراجات کا تخمینہ لگایا ہے، اسد عمر

وزیر خارجہ نے کہا کہ آپ الیکٹرانک ووٹنگ کی بات کررہے ہیں، اس پر دو رائے ہو سکتی ہیں اور ہم آپ کے نقطہ نظر کا احترام کرتے ہیں لیکن جو ہم کررہے ہیں وہ انہونی نہیں، ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان میں الیکٹرانک ووٹنگ کئی سالوں سے رائج ہے، امریکا سمیت کئی ممالک میں رائج ہے، کیا وہاں جمہوریت نہیں ہے، کیا وہاں جمہوری اقدار نہیں ہیں، کیا ان کے الیکشن دنیا تسلیم نہیں کرتی؟، کرتی ہے، اگر وہاں کرتی ہے تو یہاں مضائقہ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اوورسیز پاکستانیوں پر مجھے اور حکومتی نشستوں پر بیٹھے اراکین کو فخر ہے، وہ اس ملک میں ترسیل کرتے ہیں اور ایک طبقہ ایسا ہے جو اس ملک کو لوٹ کر پیسہ باہر بھیجتا ہے اور اوورسیز پاکستانی وہ طبقہ ہے جو پیسہ کما کر ملک میں بھیجتا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اگر ہم ان اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیتے ہیں، پاکستان کی قانون سازی اور معاملات میں ان کو اسٹیک ہولڈر بنانا چاہتے ہیں، آج کیفیت یہ ہے کہ وہ پاکستان کی برآمدات سے زیادہ پیسے بھیج رہے ہیں، آپ کہتے ہیں کہ آپ اوورسیز پاکستانیوں کے علمبردار ہیں لیکن ان کے گلے کو دبوچنا چاہتے ہیں، ان کا حق سلب کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے اوورسیز پاکستانیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ گواہ رہنا، تاریخ رقم ہو رہی ہے، ہم اوورسیز پاکستانیوں کو ان کا حق دے رہے ہیں اور یہ اوورسیز پاکستانیوں کے حقوق کا قتل کررہے ہیں، یہ ان کے حقوق کے قاتل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان نے کلبھوشن یادیو کیس پر بھارت کا بے بنیاد بیان مسترد کردیا

اس موقع پر انہوں نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے معاملے پر بھی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کلبھوشن یادیو کی کہانی ہم نے نہیں، تم نے بگاڑی، ہم تو پاکستان کے وقار کی بات کرتے ہیں لیکن ہندوستان عالمی عدالت انصاف میں جا کر یہ کہنا چاہتا ہے کہ پاکستان نے عالمی عدالت کی سفارشات پر عملدرآمد نہیں کیا اور ہم کہہ رہے ہیں کہ ہم انہیں قونصلر تک رسائی دینا چاہتے ہیں.

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں حیران ہوں کہ مجھے اپوزیشن بینچوں سے پاکستان کا نہیں، ہندوستان کا مؤقف سنائی دے رہا ہے، یہ آج ہندوستان کی بولی بول رہے ہیں۔

اس پر پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی راجا پرویز اشرف نے شدید احتجاج کیا اور کہا کہ 'کیا آپ بھارت کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ملک کی آدھی آبادی اس کے ساتھ ہے جب کہ ہم نے نصف پاکستانیوں کے ووٹ حاصل کیے ہیں؟ اپنے الفاظ واپس لیں'۔

بعدازاں اپوزیشن ممبران نے اجلاس کے بیشتر حصے کی صدارت کرنے والے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے خلاف این اے سیکریٹریٹ میں تحریک عدم اعتماد جمع کرائی اور کہا کہ انہوں نے 'اسمبلی رولز کو مبینہ طور پر نظرانداز کیا اور حکومتی ممبران کے ساتھ غیر قانونی طور پر تعاون کیا اور اپوزیشن کے کورم کی نشاندہی پر عمل نہیں کیا'۔

اپوزیشن نے چار مواقع پر کورم کی نشاندہی کی تھی تاہم ڈپٹی اسپیکر نے اپوزیشن کو روک دیا اور ہیڈکاؤنٹ کا حکم نہیں دیا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسمبلی نے جنریشن، ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن آف الیکٹرک پاور (ترمیمی) بل 2021 کو بھی منظور کرلیا جو اسی روز اس سے قبل قائمہ کمیٹی برائے بجلی کے ایجنڈے میں تھا تاہم وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس معاملے کو اٹھایا نہیں گیا تھا۔

اسمبلی کی جانب سے منظور کیے گئے دیگر بلز میں مالیاتی ادارے (محفوظ لین دین) (ترمیمی) بل 2021، پورٹ قاسم اتھارٹی (ترمیمی) بل 2021م گوادر پورٹ اتھارٹی (ترمیمی) بل 2021، اینٹی ریپ (انوسٹی گیشن اینڈ ٹرائل) بل 2020 اور کووڈ 19 (ذخیرہ اندوزی کی روک تھام) بل 2020 شامل ہے۔

ابھی ان بلز کو اپوزیشن کی اکثریتی سینیٹ سے منظور ہونا باقی ہے۔

واضح رہے کہ کلبھوشن یادیو کیس میں آئی سی جے کے فیصلے کے فوراً بعد ہی حکومت نے گزشتہ سال مئی میں ایک آرڈیننس کے ذریعے قانون نافذ کردیا تھا۔

اپوزیشن کی جماعتوں کی جانب سے کی جانے والی سخت مزاحمت کے باوجود قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے بھی گزشتہ سال 21 اکتوبر کو اس بل کو منظوری دے دی تھی۔

اسی طرح پارلیمانی امور سے متعلق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے اپوزیشن کے احتجاج کے درمیان 8 جون کو انتخابات (ترمیمی) ایکٹ 2021 کو منظور کیا تھا۔

انتخابات (ترمیمی) بل 2020 کو قومی اسمبلی میں 16 اکتوبر 2020 کو پیش کیا گیا اور اپوزیشن کے احتجاج کے درمیان 8 جون کو متعلقہ قائمہ کمیٹی نے اسے منظور کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں