ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری مذاکرات ملتوی

اپ ڈیٹ 21 جون 2021
ویانا میں اپریل سے بات چیت جاری ہے کہ ایران اور امریکا کو جوہری معاہدے کی مکمل تعمیل پر واپس آنے کے لیے ایٹمی سرگرمیوں اور پابندیوں پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی
ویانا میں اپریل سے بات چیت جاری ہے کہ ایران اور امریکا کو جوہری معاہدے کی مکمل تعمیل پر واپس آنے کے لیے ایٹمی سرگرمیوں اور پابندیوں پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی

ایران اور 6 عالمی طاقتوں کے مذاکرات کار 2015 کے ایٹمی معاہدے کی بحالی کو ملتوی کرتے ہوئے اپنے اپنے ملک واپس چلے گئے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق ایران کے اعلیٰ مذاکرات کار عباس اراقچی نے ویانا سے سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ ’اب ہم معاہدے کے قریب تر ہیں تاہم جو فاصلہ ہمارے اور معاہدے کے درمیان موجود ہے اسے ختم کرنا آسان کام نہیں ہے، ہم آج رات تہران واپس آئیں گے‘۔

اپنے حالیہ دور میں ایک ہفتے سے زیادہ جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد معاہدے کے فریقین نے اسے ملتوی کردیا اور روس کے سفیر نے بتایا کہ فی الوقت مذاکرات کی بحالی کے لیے کوئی تاریخ طے نہیں کی گئی ہے لیکن انہوں نے کہا کہ وہ تقریباً 10 دن میں واپس آسکتے ہیں۔

واضح رہے کہ ویانا میں اپریل سے بات چیت جاری ہے کہ ایران اور امریکا کو جوہری معاہدے کی مکمل تعمیل پر واپس آنے کے لیے ایٹمی سرگرمیوں اور پابندیوں پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔

مزید پڑھیں: ایران میں سوئٹزرلینڈ کی سینئر سفارتکار عمارت سے گر کر ہلاک

یورپی یونین کے پولیٹیکل ڈائریکٹر نے ویانا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 'ہم نے رواں ہفتے اس چھٹے دور میں اہم پیشرفت کی ہے، ہم ایک معاہدے کے قریب ہیں لیکن اب بھی وہاں پہنچے نہیں ہیں‘۔

یاد رہے کہ 2018 میں امریکا، ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے دستبردار ہوگیا تھا اور اس پر دوبارہ پابندیاں عائد کردی گئی تھیں۔

امریکا کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کہا کہ اس معاہدے کو بچانے کے طریقوں پر اختلافات برقرار ہیں اور دہرایا کہ اس معاملے میں حتمی فیصلہ آیت اللہ خامنہ ای کریں گے۔

جیک سلیوان نے 'اے بی سی نیوز' کو بتایا کہ ’پابندیوں اور ایران کے ساتھ جوہری وعدوں جیسے چند اہم معاملات ہیں جن کا پورا ہونا باقی ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایران پر پابندیاں ختم کرنے کے سوال پر ابھی بھی تبادلہ خیال کیا جارہا ہے۔

ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا کہ انہوں نے آسٹریا میں ہونے والے ایک ممکنہ معاہدے کے متن میں ترمیم کی ہے اور کہا ہے کہ اسے ’شفاف سے شفاف تر‘ بنایا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگست کے وسط تک موجودہ ایرانی انتظامیہ کے اقتدار چھوڑنے سے قبل معاہدہ طے پانے کا پورا امکان ہے‘۔

نئی حکومت کے ساتھ مذاکرات نہ کریں، اسرائیل

ادھر ایران کے حریف اسرائیل نے ایران میں ہونے والے صدارتی انتخاب کی مذمت کی ہے، یہودی ریاست کے وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے کہا کہ یہ ’سفاک لوگوں کی حکومت‘ ہوگی جس کے ساتھ عالمی قوتوں کو نئے جوہری معاہدے پر بات چیت نہیں کرنی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: ایران کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کے لیے مذاکرات ہو رہے ہیں، سعودی عہدیدار

انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’(ان کا) انتخاب، ایٹمی معاہدے میں واپس آنے سے قبل عالمی قوتوں کے بیدار ہونے اور سمجھنے کا آخری موقع ہے۔

ایران کے نومنتخب صدر ابراہیم رئیسی نے 1988 میں ہزاروں سیاسی قیدیوں کو غیر قانونی طور پر پھانسی دینے کے ضمن میں ان کے کردار پر الزامات کے حوالے سے عوامی طور پر کبھی بھی گفتگو نہیں کی۔

ان پر امریکی پابندیاں بھی عائد ہیں۔

معاہدے کا سہرا

ابراہیم رئیسی نے بھی آیت اللہ خامنہ ای کی طرح جوہری معاہدوں کی حمایت کی ہے جس نے ایران کی تیل پر مبنی معیشت کو نقصان پہنچایا ہے اور غیر معمولی طور پر معاشی مشکلات پیدا کی ہیں جس سے بڑے پیمانے پر عدم اطمینان پیدا ہوا۔

نئی حکومت اُمید کرتی ہے کہ معاہدے کی بحالی سے پیدا ہونے والے کسی بھی معاشی فوائد کا سہرا دیا جائے جو ابراہیم رئیسی کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے سبکدوش ہونے والی انتظامیہ کو بھی مل سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: ابراہیم رئیسی ایران کے نئے صدر منتخب

مذاکرات کے بارے میں معلومات رکھنے والے ایک سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ ’جب حسن روحانی (موجودہ) صدر ہیں تو اس معاہدے کو حتمی شکل دیا گیا تو آنے والی حکومت کے حامی اسے تنقید کا نشانہ نہیں بنائیں گے‘۔

متعدد ایرانی عہدیداروں نے بتایا کہ ملک کی موجودہ مذاکراتی ٹیم کم از کم چند ماہ کے لیے ابراہیم رئیسی کی صدارت میں برقرار رہے گی۔

ایک اور عہدیدار نے کہا کہ ’ابراہیم رئیسی کسے اپنا وزیر خارجہ منتخب کرتے ہیں یہ نئی حکومت کی خارجہ پالیسی کے طریقہ کار کو ظاہر کرے گا لیکن اسٹیبلشمنٹ کی جوہری پالیسی کا فیصلہ حکومت نہیں کرتی بلکہ آیت اللہ خامنہ ای کرتے ہیں‘۔

تبصرے (0) بند ہیں