بھارت میں کووڈ 19 سے جڑے بلیک فنگس کے کیسز کی تعداد میں محض 3 ہفتوں 30 ہزار سے زیادہ کا اضافہ ہوچکا ہے۔

میوکورمائیکوسس (Mucormycosis) نامی اس بیماری کو بلیگ فنگس انفیکشن کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، جو ابتدا میں مریضوں کی ناک کو متاثر کرتی ہے مگر وہاں سے دماغ تک پھیل جاتی ہے۔

بھارت بھر میں کورونا وائرس کو شکست دینے والے مریضوں میں اس کے کیسز بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور ڈاکٹروں کا ماننا ہے کہ کووڈ کے مریضوں کو بچانے کے لیے کی جانے والی کوششوں سے ان میں یہ مرض پھیل رہا ہے۔

مقامی میڈیا کے مطابق بھارتی ریاستوں میں بلیک فنگس کے نتیجے میں اب تک 21 سو سے زیادہ لاکتیں ہوچکی ہیں، تاہم سرکاری طور پر ہلاکتوں کی تعداد جاری نہیں کی گئی ہے۔

بھارت میں کورونا وائرس کی دوسری لہر کے دوران نظام صحت کی کمزوریوں اور اہم آلات و بستروں کی کمی کووڈ کیسز اور اموات میں اضافے کی وجہ بنی۔

بھارتی ماہرین کے مطابق بلیک فنگس کووڈ کیسز میں کمی کے بعد ہوسکتا ہے کہ واپس چلا جائے مگر تیسری لہر کے دوران وہ پھر لوٹ سکتا ہے اور اس کو روکنا اسی وقت ممکن ہوگا جب ہم جان لیں کہ آخر ہوکیا رہا ہے۔

فنگس کا باعث بننے والے بیماری جسم میں داخل ہونے کے بعد یہ ناک اور آنکھوں کے ارگرد پھیلنے لگتی ہے جس سے ناک کی رنگت سیاہ ہوجاتی ہے اور اس کی روک تھام نہ کی جائے تو یہ دماغ تک پہنچ کر جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔

صحت مند افراد تو اس کا مقابلہ کرسکتے ہیں مگر کمزور مدافعتی نظام کے حامل لوگوں میں یہ بہت تیزی سے پھیلتی ہے۔

اکثر اس کا علاج ایک بڑے آپریشن سے ہوتا ہے جس میں آنکھ، کھوپڑی یا جبڑے کا ایک ٹکڑا نکال دیا جاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق بھارت کے پرہجوم ہسپتال اور میڈیکل آکسیجن کی قلت سے فنگس کو پھیلنے کا موقع ملا۔

آکسیجن کی کمی کے باعث متعدد علاقوں میں ڈاکٹروں نے مریضوں کا علاج اسٹرائیڈز سے کیا، جس سے پھیپھڑوں میں ورم کم ہوتا ہے اور سانس آسانی سے لینا ممکن ہوتا ہے۔

تاہم ماہرین کا کہنا تھا کہ اسٹرائیڈز کا بہت زیادہ استعمال بلیک فنگس کی وبا کا باعث بنا کیونکہ ان ادویات سے کووڈ کے مریضوں کا مدافعتی نظام کمزور ہوگیا اور فنگس کے پھیلاؤ کا خطرہ بڑھ گیا۔

اسٹرائیڈز سے ممکنہ طور پر بلڈ شوگر کی سطح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوسکتا ہے، جس سے ذیابیطس کے مریض بلیک فنگس کے لیے آسان شکار بن جاتے ہیں۔

کووڈ کی لہر کے دوران ڈاکٹروں کو مریضوں سے یہ پوچھنے کا موع بھی نہیں ملا تھا کہ وہ ذیابیطس یا کسی اور بیماری کے شکار تو نہیں تھے۔

ماہرین کے مطابق ڈاکٹروں کے پاس مریضوں کی بہت زیادہ تعداد کے پاس وقت ہی نہیں تھا اور سانس کی بحالی کے لیے ہر ممکن کوششیں کررہے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں