گیس بحران کے بجلی کی فراہمی پر اثرات ختم کرنے کیلئے حکومتی اقدامات

اپ ڈیٹ 23 جون 2021
بجلی اور پیٹرولیم ڈویژن اور ان سے منسلک اداروں نے ایندھن کی فراہمی کے مختلف ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے گیس کی قلت کے اثرات کو کم کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کی ہیں، عہدیدار - فائل فوٹو:اے پی پی
بجلی اور پیٹرولیم ڈویژن اور ان سے منسلک اداروں نے ایندھن کی فراہمی کے مختلف ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے گیس کی قلت کے اثرات کو کم کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کی ہیں، عہدیدار - فائل فوٹو:اے پی پی

اسلام آباد: جہاں گرمیوں کے دوران گیس کی قلت سے بجلی کی فراہمی متاثر ہورہی ہے وہیں اعلیٰ سطح کے اجلاس منعقد کیے جارہے ہیں تاکہ رواں ماہ اینگرو کے فلوٹنگ ایل این جی ٹرمینل کی ڈرائی ڈاکنگ کو سہولیات فراہم کی جاسکیں جس نے حکومتی اداروں پر اس صورتحال کا الزام عائد کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب ہائیڈرو پاور کے نظام میں قدرتی رکاوٹیں بھی موجود ہیں، مقامی گیس فیلڈز کو بحالی اور فرنس آئل سپلائی کی ضرورت ہوتی ہے جو مختصر نوٹس پر گیلپ ٹینڈر کے ذریعے مہنگی پڑرہی ہے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر عہدیداروں نے ڈان کو بتایا کہ بجلی اور پیٹرولیم ڈویژن اور ان سے منسلک اداروں نے ایندھن کی فراہمی کے مختلف ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے گیس کی قلت کے اثرات کو کم کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کوٹ ادو پلانٹ میں فرنس آئل اسٹاک کی تیاری کر لی گئی ہے اور حبکو میں ذخیرے کے انتظامات کیے جارہے ہیں تاکہ حب پاور پلانٹ کے ذریعے کم از کم کے الیکٹرک کی جزوی ضرورت پوری کی جاسکے جو عام طور پر اس کی فرنس آئل پر مبنی ٹربائنوں کی وجہ سے میرٹ کے آرڈر پر کم ہونے کی وجہ سے تقریباً بند رہا ہے۔

اسی طرح کی ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ حکام دو آپشنز پر غور کر رہے ہیں، اس میں سے ایک یہ ہے کہ 12 سے 15 روز تک لوڈشیڈنگ کرنا ہے جس میں روزانہ مختصر وقت کے لیے بجلی بند کی جائے جبکہ دوسرا یہ ہے کہ ایک ہفتے کے اندر اندر لوڈشیڈنگ ختم کی جائے لیکن اس میں دن میں زیادہ دیر کے لیے بجلی بند ہو۔

مزید پڑھیں: گیس کمپنیوں کو ایل این جی آپریٹرز کے تحفظات دور کرنے کی ہدایت

ایک عہدیدار نے بتایا کہ طلب میں اضافے کی وجہ سے بوجھ کی تعداد برقرار رکھنا ایک چیلنج رہے گا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ اینگرو کے فلوٹنگ اسٹوریج اینڈ ری گیسیفیکیشن یونٹ (ایف ایس آر یو) کو متبادل انتظامات کو یقینی بنانے کی اجازت کے لیے چند ذرائع کی مصروفیات کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے آج بھی ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ پاور ڈویژن نے پہلے ہی پیٹرولیم ڈویژن سے شکایت کی تھی کہ نیشنل پاور کنٹرول سینٹر (این پی سی سی) کے مطالبات کے مطابق بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس کو آر ایل این جی کے لیے مختص رقم میں سے خاطر خواہ رقم نہیں مل رہی ہے۔

پیٹرولیم سیکریٹری کو حالیہ مراسلے میں پاور ڈویژن کے سیکریٹری نے نشاندہی کی تھی کہ این پی سی سی نے جون، جولائی، اگست اور ستمبر کے دوران 900 ملین مکعب فٹ فی یوم (ایم ایم سی ایف ڈی) اور اکتوبر کے لیے تقریبا 700 ایم ایم سی ایف ڈی کی آر ایل این جی کی درخواست کی ہے۔

تاہم گیس کمپنیوں نے جون کے لیے صرف 640 ایم ایم سی ایف ڈی، جولائی کے لیے 600 ایم ایم سی ایف ڈی اگست کے لیے 420 ایم ایم سی ایف ڈی، ستمبر کے لیے 516 ایم ایم سی ایف ڈی اور اکتوبر کے لیے 471 ایم ایم سی ایف ڈی مختص کیا ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ ان مہینوں کے دوران بجلی گھروں کو اپنی ایل این جی کی ضروریات سے 30 سے 53 فیصد کم فائدہ ملے گی۔

یہ بھی پڑھیں: قیمتوں کے نئے طریقہ کار کے تحت ایل این جی کارگوز کیلئے 42 بولیاں موصول

پاور سیکریٹری نے لکھا کہ 'گرمی کے دوران بجلی کی پیداوار کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یہ ناکافی ہیں'، یہ بات واضح ہے کہ پاور پلانٹس کو آر ایل این جی کی فراہمی میں کمی کے نتیجے میں فرنس آئل اور ڈیزل کی کھپت میں اضافہ ہوگا جو بہت مہنگا ہے'۔

پاور ڈویژن نے کہا کہ آر ایل این جی کے مطالبے سے کم موجودگی پر سسٹم کی اعلیٰ ترین صلاحیت میں بھی تیزی سے کمی واقع ہوگی جو لوڈ مینجمنٹ کا باعث بنے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اگست میں آر ایل این جی کی بہت کم مقدار مختص ہونے کی وجہ سے نندی پور، کپکو اور فوجی کبیر والا پاور ہاؤس دستیاب نہیں رہیں گے کیونکہ ایسے معاملے میں انہیں متبادل مہنگے ایندھن پر چلنا پڑتا ہے اور اسی وجہ سے گوجرانوالہ اور ملتان بجلی فراہم کرنے والے نیٹ ورک میں سخت لوڈ مینجمنٹ ہوگی۔

دوسری جانب اینگرو ایلنجی ٹرمینل پرائیویٹ لمیٹڈ (ای ای ٹی پی ایل) نے کہا کہ 30 جون تک اس کے ٹرمینل کی منصوبہ بند ڈرائی ڈاکنگ سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) کے ساتھ فراہمی کے معاہدے کے مطابق تھی اور بین الاقوامی قوانین کے تحت ناگزیر ہے۔

ایک بیان میں ای ای ٹی پی ایل نے کہا کہ وہ اکتوبر 2019 سے ایس ایس جی سی اور تمام متعلقہ سرکاری اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ڈرائی ڈاکنگ پر تبادلہ خیال کررہے ہیں اور کلاس سوسائٹی کی جانب سے جاری کردہ سروے رپورٹ کے بعد 30 مارچ 2021 کو ڈرائی پورٹ کی سرگرمی سے متعلق اپڈیٹ کے بارے میں انہیں آگاہ کر رہے ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ 'اسٹیک ہولڈرز، یعنی ایس ایس جی سی، ایس این جی پی ایل اور پی ایس او اور ای ای ٹی پی ایل نے مارچ کے نوٹیفکیشن کے بعد ڈرائی ڈاک سرگرمی کے لیے سالانہ ڈلیوری پلان (اے ڈی پی) کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے اپنے تعاون اور لچک کو تلاش کرنے کے لیے متعدد اجلاس کیے ہیں۔

تاہم اس میں کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی ہے کیونکہ ایس ایس جی سی کو ایس این جی پی ایل کی طرف سے گیس کی فراہمی میں رکاوٹ کے باعث لیکویڈیٹی نقصانات (ایل ڈی) کے اضافے کا خدشہ ہے۔

**مزید پڑھیں: ایل این جی اسپاٹ مارکیٹ میں پاکستان کو سرد مہری کا سامنا **

اس میں کہا گیا کہ 'اینگرو الینجی اور ایکسکیوزٹ کے آپریٹرز نے گیس کمپنیوں کے ذریعے اگست کے لیے پہلے ہی منصوبہ بند شٹ ڈاؤن کو جہاز کی تبدیلی کے ساتھ کرنے کی پوری کوشش کی تھی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہماری سابقہ مصروفیات میں اسٹیک ہولڈرز نے جون کے آخر میں کبھی بھی ڈرائی ڈاکنگ کے بارے میں کوئی تشویش نہیں اٹھائی تھی'۔

اینگرو نے کہا کہ 15 سال میں دو بار ڈرائی ڈاکنگ کی مطلوبہ مدت کو شٹ ڈاؤن کے دنوں کے طور پر شمار کیا گیا اور ملک کی توانائی کی ضروریات کے لیے مناسب منصوبہ بندی کو یقینی بنانے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو پیشگی اطلاع دی گئی تھی۔

اس میں کہا گیا کہ 'جہاز سے متعلق شٹ ڈاؤن کا ہمیشہ باہمی طور پر انتظام کیا جاتا ہے تاہم اس سرگرمی کو پیچیدہ کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے فیصلہ سازی میں تاخیر ہوئی ہے'۔

اس میں کہا گیا کہ 'اینگرو نے ایک انتہائی مشکل وقت پر پاکستان کے ایل این جی کے شعبے میں سرمایہ کاری کا آغاز کیا اور اس کے بعد سے ہی اسے ایل این جی مارکیٹ کو مزید ترقی دینے کے لیے حکومت کے اقدامات کی مکمل حمایت کی ہے، اگر بین الاقوامی کلاس سوسائٹی کے قوانین کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور معمول کے معاملات جیسے ڈرائی ڈاکنگ کو بغیر کسی وجہ سے غلط سمجھا جاتا ہے تو یہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو منفی اشارہ بھیجے گا جو اس شعبے میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنے کے خواہاں ہیں'۔

اینگرو نے تصدیق کی کہ اپنی آخری دو ملاقاتوں میں سی سی او ای نے پیٹرولیم ڈویژن اور وزارت بحری امور کے درمیان تعطل دیکھا تھا جب کہ وزیر خزانہ شوکت ترین اور سی سی او ای کے چیئرمین اسد عمر نے بھی خدشہ ظاہر کیا تھا کہ متبادل عمل سے اقتصادی سرگرمیاں سست ہوجائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں