افغانستان: صوبہ کنڑ میں راکٹ حملے کے بعد ہسپتال میں آتشزدگی

اپ ڈیٹ 23 جون 2021
راکٹ حملے کے بعد صوبہ کنڑ میں افغان فوج کی گاڑی گشت کررہی ہے— فوٹو: اے پی
راکٹ حملے کے بعد صوبہ کنڑ میں افغان فوج کی گاڑی گشت کررہی ہے— فوٹو: اے پی

افغانستان کے ایک ہسپتال کو راکٹ سے نشانہ بنایا گیا ہے، جس سے آگ بھڑکنے کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر عمارت اور کووڈ-19 ویکسین کو نقصان پہنچا ہے البتہ کسی کی ہلاکت کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق افغانستان کے شمالی علاقے میں طالبان نے تاجکستان کی سرحد پر ایک خشک بندرگاہ شیر خان بندر کے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا جس کے باعث کسٹم اہلکار اور سیکیورٹی فورسز کے اراکین جان بچا کر سرحد پار فرار ہو گئے تھے۔

مزید پڑھیں: افغانستان: طالبان نے تاجکستان جانے والی مرکزی سرحدی گزرگاہ پر قبضہ کرلیا

حالیہ ہفتوں کے دوران افغان افواج اور شدت پسندوں کے درمیان لڑائی میں شدت آگئی ہے، عسکریت پسندوں نے مزید علاقوں پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے کیونکہ امریکا کی زیر اتحادی افواج دو دہائیوں کی لڑائی کے بعد وہاں سے نکلنے کے لیے تیار ہیں۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے مشرقی صوبہ کنڑ کے ہسپتال پر حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی جبکہ صوبائی صحت کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ اس حملے کے نتیجے میں اہم سامان کا نقصان ہوا ہے۔

کنڑ کے محکمہ صحت کے عہدیدار عزیز صفائی نے بتایا کہ آگ لگنے کے باعث پولیس اور کووڈ-19 سمیت مختلف اقسام کی ویکسین ضائع ہو گئی۔

افغانستان میں کووڈ-19 سے اب تک 4 ہزار 366 افراد ہلاک جبکہ ایک لاکھ سے زائد وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں۔

صحت کے حکام کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کے انفیکشن کی اصل تعداد رپورٹ ہونے والی تعداد سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ محدود وسائل کے سبب بڑی تعداد میں لوگوں کی جانچ نہیں ہو سکی۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں کشیدگی میں اضافہ، آرمی چیف اور دو وزرا تبدیل

یہ وائرس ایک ایسے وقت میں پھیل رہا ہے جب افغانستان کے عوام میں عدم تحفظ بڑھتا جارہا ہے کیونکہ یکم مئی کے بعد امریکی افواج کے انخلاف کا عمل آخری مرحلے میں داخل ہو گیا ہے اور طالبان نے سرکاری افواج پر حملے تیز کردیے ہیں۔

تاجکستان کے سرحدی محافظوں کی سروس کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ قندوز شہر سے تقریباً 50 کلو میٹر کے فاصلے پر شیر خان بندر سے 134 افغان فوجیوں کو تاجکستان میں داخل ہونے کی اجازت دی ہے۔

افغان حکام نے بتایا کہ افغانستان فورسز کے اہلکاروں کی جانب سے ہتھیار ڈالے جانے کے بعد طالبان نے اس قصبے میں گولہ بارود اور بکتر بند گاڑیاں قبضے میں لے لی ہیں۔

تجارت کے لحاظ سے اہمیت کے حامل شہر کا نقصان امریکی حمایت یافتہ حکومت کے لیے ایک دھچکا ہوگا کیونکہ وہ ملک کے مختلف حصوں میں طالبان کی پیش قدمی روکنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔

بدھ کے روز ایک بیان میں طالبان نے کہا کہ طالبان کے زیر قبضہ سرحدی تجارتی بندرگاہیں اپنا کام جاری رکھیں گی۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں امن کا واحد راستہ اسلامی نظام ہے، طالبان

انہوں نے کہا کہ تمام تجارتی درآمدات اور برآمدات کے ساتھ ساتھ تاجروں کے معمولات اور انتظامی امور بلاتعطل جاری رہیں گے۔

عسکریت پسند گروپ نے افغان سیکیورٹی فورسز اور افغانستان کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کے لیے کام کرنے والے افراد کو بھی طالبان کے اقتدار میں کھلے دل سے شامل ہونے کی دعوت دی۔

طالبان کا کہنا تھا کہ ہم ان کا خیرمقدم کریں گے اور ان کا احترام کریں گے اور انہیں مکمل یقین دہانی کے ساتھ ان کے گھر اور اہلخانہ کے پاس بھیجیں گے۔

طالبان نے اپنے جنگجوؤں کو بھی ہدایت کی کہ وہ جاری جھڑپوں میں عوامی مقامات، کاروباری اداروں اور عوام کی رہائش گاہوں کی حفاظت کریں اور انہیں نقصان نہ پہنچائیں۔

تبصرے (0) بند ہیں