ہیومن رائٹس واچ کا یو اے ای پر پاکستانیوں کو قید، ڈی پورٹ کرنے کا الزام

اپ ڈیٹ 24 جون 2021
یو اے ای کی جانب سے ان الزامات کو جھوٹا اور غیر مصدقہ قرار دیا گیا تھا—فائل فوٹو: رائٹرز
یو اے ای کی جانب سے ان الزامات کو جھوٹا اور غیر مصدقہ قرار دیا گیا تھا—فائل فوٹو: رائٹرز

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے متحدہ عرب امارات پر 4 پاکستانیوں کو گزشتہ برس اکتوبر سے لاپتا رکھنے کا الزام عائد کردیا۔

عالمی تنظیم کے مطابق دیگر 6 افراد کو اہلِ تشیع مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر ڈی پورٹ بھی کیا گیا۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیم نے منگل کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا کہ یہ 10 افراد برسوں سے یو اے ای میں بحیثیت منیجر، سیلز اسٹاف، چھوٹے کاروبار کے سربراہ، مزدوروں اور ڈرائیور کے طور پر کام کرتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: انسانی حقوق کی خلاف ورزی: قطر نے امارات کے خلاف عالمی عدالت میں کیس دائر کردیا

اس سے قبل ہیومن رائٹس واچ نے کہا تھا کہ متحدہ عرب امارات کی جیلوں میں سیکڑوں ایکٹوسٹس، دانشور اور وکلا طویل سزائیں کاٹ رہے ہیں۔

تاہم یو اے ای کی جانب سے ان الزامات کو جھوٹا اور غیر مصدقہ قرار دیا گیا تھا۔

ایچ آر ڈبلیو کی رپورٹ میں کہا گیا کہ 'یو اے ای حکام نے اکتوبر اور نومبر میں 6 افراد کو جبری طور پر لاپتا اور 3 ہفتوں سے 5 ماہ کی قید تنہائی کے بعد رہا کر کے فوری طور پر ڈی پورٹ کردیا تھا'۔

قید میں رہنے والے 4 افراد میں سے ایک نے 6 ماہ بعد اپنے اہلِ خانہ کو کال کی تھی ان کے اہلِ خانہ کو اب بھی یہ معلوم نہیں کہ انہیں حکام نے کہاں رکھا ہوا ہے اور انہیں قید کیوں کیا گیا۔

مزید پڑھیں: اقوام متحدہ کا امارات سے شہزادی لطیفہ کے زندہ ہونے کے 'ٹھوس ثبوت' پیش کرنے کا مطالبہ

انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا تھا کہ انہوں نے مذکورہ خاندان کے اراکین سے بات کی تھی، جن کا کہنا تھا کہ وہ دیگر پاکستانی اہلِ تشیع مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی جانتے تھے جنہیں یو اے ای حکام نے ستمبر سے وسط سے اٹھا رکھا ہے۔

ایچ آر ڈبلیو نے کہا کہ 'عالمی کشیدگی میں اضافے کے وقت یو اے ای حکام کی جانب سے اہلِ تشیع رہائشیوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانے کی رپورٹس اکثر سامنے آتی ہیں چاہے وہ، لبنانی، عراقی، افغان، پاکستانی یا کوئی اور ہوں'۔


یہ خبر 24 جون 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں