مودی کا مقبوضہ کشمیر پر اے پی سی بلانا سال کا سب سے بڑا مذاق ہے، مشعال ملک

اپ ڈیٹ 24 جون 2021
اسیر کشمیری رہنما یٰسین ملک کی اہلیہ نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا—تصویر: مشعال ملک فیس بک
اسیر کشمیری رہنما یٰسین ملک کی اہلیہ نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا—تصویر: مشعال ملک فیس بک

مشعال ملک نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے رہنماؤں کی آل پارٹیز کانفرنس بلانے کو سال کا سب سے بڑا مذاق قرار دے دیا۔

اسیر کشمیری رہنما یٰسین ملک کی اہلیہ نے ایک ویڈیو پیغام میں بھارتی وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسا مذاق ہے کہ آپ آئے روز نیا ڈراما کرتے ہیں اور آج آل پارٹیز کانفرنس کر کے آپ کو اچانک مقبوضہ کشمیر کی یاد آگئی۔

مشعال ملک کا کہنا تھا کہ آپ نے 5 اگست 2019 کو آئین کی دفعہ 370 اور 35 اے کو ختم کر کے ہر کشمیری کو بے وطن کر کے پناہ گزین بنا دیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ بھارتی وزیراعظم آج اپنے ہی ڈراما آرٹسٹس اور کٹھ پتلیوں کو بلا کر ایک آل پارٹیز اجلاس کا تھیٹر لگا رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت نواز کشمیری رہنماؤں سے مودی کی ملاقات متوقع، آرٹیکل 370 پر حمایت کی کوشش کا امکان

مشعال ملک نے کہا کہ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا گونگی، بہری اور اندھی ہوگئی ہے، کیا انہیں نظر نہیں آرہا ہے بھارتی سرکار نے 2 سال قبل مقبوضہ کشمیر کو قبرستان بنانے کا منصوبہ بنایا تھا۔

کشمیری رہنما کی اہلیہ نے کہا کہ حق خود ارادیت کی جدوجہد کے اصل وارث اور جمہوری آوازوں یعنی حریت رہنماؤں کو جیلوں میں قید کر کے تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور کال کوٹھری میں رکھا ہوا ہے۔

مشعال ملک نے کہا کہ کشمیری عوام کو گھروں میں یرغمال بنایا ہوا ہے اور ان کی قبروں پر بندوقیں تان کر اپنے ہی لوگوں کے ساتھ آل پارٹیز کانفرنس بلا رہے ہیں، یہ تو اس سال کا سب سے بڑا مذاق ہوا۔

خیال رہے کہ کچھ رپورٹس سامنے آئی تھیں جن کے مطابق بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی مقبوضہ کشمیر میں بھارت نواز کشمیری رہنماؤں سے ملاقات کریں گے، اس دوران مقبوضہ وادی کے اندر سیاسی عمل کو دوبارہ فعال کرنے پر بات چیت متوقع ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت کشمیر کی حیثیت کی بحالی کا لائحہ عمل دے تو مذاکرات کیلئے تیار ہیں، وزیراعظم

ان کی ملاقات کو مقبوضہ کشمیر سے متعلق سخت گیر پالیسی کے تناظر میں ایک بڑی پسپائی تصور کیا جارہا ہے۔

بھارت کی جانب سے اگست 2019 میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے نئی دہلی اور مقبوضہ کشمیر کے اہم سیاسی رہنماؤں کے درمیان یہ پہلی ملاقات ہوگی، جسے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے دونوں اطراف گہری نظروں سے دیکھا جارہا ہے۔

اجلاس میں مدعو کیے جانے والے رہنماؤں میں مقبوضہ کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبد اللہ اور عمر عبداللہ (نیشنل کانفرنس)، غلام نبی آزاد (کانگریس) اور محبوبہ مفتی (پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی) شامل ہیں جنہیں بھارتی حکام نے 5 اگست 2019 کے یکطرفہ اقدام کے بعد حراست میں لے لیا تھا۔

اس اجلاس میں شامل ہونے والے دیگر افراد میں تارا چند، مظفر حسین بیگ، نرمل سنگھ، کوویندر گپتا، یوسف تاریگامی، الطاف بخاری، سجاد لون، جی اے میر، رویڈنر رائنا اور بھیم سنگھ بھی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی وزیراعظم کی مقبوضہ کشمیر آمد پر حریت قیادت نظر بند، وادی میں ہڑتال

آل پارٹیز حریت کانفرنس (اے پی ایچ سی) اس ملاقات کا حصہ نہیں ہے۔

اسلام آباد کی جانب سے اس ملاقات کو 5 اگست کے اقدام کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش کے طور پر دیکھا جارہا ہے جسے مقبوضہ جموں و کشمیر میں غیرمعمولی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

اس حوالے سے کہا جارہا ہے کہ نریندر مودی اور کشمیری رہنماؤں کے مابین ملاقات کا کوئی ایجنڈا نہیں ہوگا اور وہ مقبوضہ کشمیر کی مجموعی صورتحال پر تبادلہ خیال کریں گے۔

خیال رہے کہ 5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت نے آئین میں کشمیر کو دی گئی خصوصی حیثیت ختم کر کے اسے وفاقی اکائیوں میں تبدیل کردیا تھا۔

اس اقدام سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی شہریوں کے املاک خریدنے، نوکریاں حاصل کرنے اور مقامی خواتین سے شادی کرنے کی راہ ہموار ہوئی تھی۔

اس اقدام سے قبل بھارتی حکومت نے حریت رہنماؤں سمیت لاتعداد سیاسی کارکنان کو حراست میں لے لیا تھا جس میں سے متعدد اب بھی جیلوں میں قید یا نظر بند ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں