عثمان کاکڑ کی موت پر تحقیقات کیلئے حکومتی تعاون کی یقینی دہانی

اپ ڈیٹ 24 جون 2021
21  جون کو پی کے میپ کے رہنما کراچی میں انتقال کر گئے تھے—فائل فوٹو
21 جون کو پی کے میپ کے رہنما کراچی میں انتقال کر گئے تھے—فائل فوٹو

خیبرپختونخوا: صوبائی وزیر داخلہ میر ضیا لانگو نے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے رہنما اور سابق سینیٹر عثمان کاکڑ کی موت پر تحقیقات کے لیے حکومتی تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔

رات گئے صوبائی وزیر داخلہ میر ضیا لانگو، صوبائی وزیر خزانہ ظہور بلیدی اور صوبائی وزیر برائے خوراک سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔

مزیدپڑھیں: 'پی کے میپ' کے رہنما عثمان کاکڑ کراچی میں انتقال کرگئے

اس موقع پر میر ضا لانگو نے کہا کہ عثمان کاکڑ کی موت پر انتہائی دکھ اور رنج ہے، عثمان کاکڑ کے لواحقین جس طرح کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں حکومت ان کے ساتھ ہے۔

اس سے قبل پی کے میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے پارٹی کے رہنما اور سابق سینیٹر عثمان خان کاکڑ کی موت کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

اس حوالے سے پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے مسلم باغ میں عثمان خان کاکڑ کی تدفین کے موقع پر کہا تھا کہ اگر حکام اس واقعے کی تحقیقات کرنا چاہیں تو ثبوت بھی پیش کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: عثمان کاکڑ کے جسم پر تشدد کے نشان نہیں تھے، پوسٹ مارٹم رپورٹ

انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی رہنماؤں نے پارلیمنٹ اور آئین کی بالادستی کے لیے جدوجہد کرنے پر عثمان کاکڑ کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔

محمود خان اچکزئی نے کہا کہ عثمان کاکڑ نے اپنی ساری زندگی ملک میں جمہوریت، انسانی حقوق، اور آئین کو برقرار رکھنے میں صرف کی۔

مزید پڑھیں: سینیٹ: اپوزیشن نے عثمان کاکڑ کے انتقال پر سوالات اٹھادیے، تحقیقات کا مطالبہ

علاوہ ازیں سینیٹ میں اپوزیشن اراکین نے سابق سینیٹر عثمان کاکڑ کے گھر میں زخمی ہونے کے بعد ان کے انتقال پر سوال اٹھاتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

خیال رہے کہ پی کے میپ کے سینئر رہنما اور سابق سینیٹر عثمان کاکڑ کوئٹہ میں سر پر چوٹ لگنے سے شدید زخمی ہوگئے تھے اور کراچی کے نجی ہسپتال میں دوران علاج انتقال کر گئے تھے۔

عثمان کاکڑ کے ذاتی معالج ڈاکٹر صمد پنزئی نے ڈان ڈاٹ کام سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ کوئٹہ میں واقع ان کی رہائش گاہ پر انہیں سر میں چوٹ آئی تھی اور 30 منٹ کے اندر ہی انہیں ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا جہاں ان کا آپریشن کیا گیا اور انہیں وینٹیلیٹر پر رکھا گیا تھا۔

بعد ازاں انہیں خصوصی ایئر ایمبولینس میں کراچی کے آغا خان یونیورسٹی ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں دوران علاج 21 جون کو خالق حقیقی سے جا ملے تھے۔

ڈاکٹر صمد پنزئی نے بتایا تھا کہ ان کی موت کی وجہ ان کے دماغ میں چوٹ ہے جس کی وجہ سے خون جمع ہوگیا تھا۔

بعد ازاں پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کہا گیا کہ عثمان کاکڑ کے جسم کے کسی بھی حصے پر تشدد کے نشانات نہیں تھے۔

جناح پوسٹ گریجویٹ کی ایڈیشنل پولیس سرجن ڈاکٹر سمعیہ سید نے کہا تھا کہ سر میں مبینہ چوٹ کے بارے میں فی الحال تبصرہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ سرجری ان کی زندگی کے دوران ہی کی گئی تھی، البتہ سی ٹی اسکین کے ساتھ ساتھ اینٹی مارٹم اور پوسٹ مارٹم دونوں ہی دستیاب ہیں جبکہ ہسپتال کے ریکارڈ کے ساتھ ساتھ کیمیائی تجزیے اور ہسٹوپیتھولوجی سے متعلق رپورٹس کے نتائج کا انتظار کیا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عثمان کاکڑ کے اہل خانہ نے بھی آزادانہ جانچ کے لیے نمونے دینے کی درخواست کی تھی جو انہیں فراہم کر دیے گئے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں