مودی کی کشمیری رہنماؤں سے ملاقات، 'کسی اہم فیصلے کا اعلان نہ ہو سکا'

25 جون 2021
کشمیری اتحاد کے ترجمان نے کہا کہ مودی نے کوئی یقین دہانی نہیں کروائی—فوٹو: مودی ٹوئٹر
کشمیری اتحاد کے ترجمان نے کہا کہ مودی نے کوئی یقین دہانی نہیں کروائی—فوٹو: مودی ٹوئٹر

بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کا مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کے بعد پہلی مرتبہ کشمیری سیاست دانوں کے ساتھ اہم اجلاس ہوا لیکن اس میں کسی اہم فیصلے کا اعلان نہیں کیا گیا۔

خبرایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق اجلاس کے بعد کسی اہم فیصلے کا اعلان نہیں کیا گیا اور متعدد کشمیری رہنماؤں نے کہا کہ انہوں نے بھارت پر 2019 میں کی گئی تبدیلیوں کو واپس لینے پر زور دیا۔

مزید پڑھیں: بھارت نواز کشمیری رہنماؤں سے مودی کی ملاقات متوقع، آرٹیکل 370 پر حمایت کی کوشش کا امکان

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اجلاس کو 'ترقی یافتہ اور پروگریسیو کشمیر کی جانب جاری کوششوں میں شامل ایک قدم' سے تعبیر کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہماری جمہوریت کی یہ سب سے بڑی طاقت ہے کہ ٹیبل پر بلاتفریق بیٹھنے اور تبادلہ خیال کی صلاحیت ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'میں نے جموں و کشمیر کے رہنماؤں سے کہا کہ یہ عوام ہی ہیں، بالخصوص نوجوان، جنہوں نے جموں و کشمیر کو سیاسی قیادت فراہم کی ہے اور ان کی خواہشات کو مکمل طور پر پورا کردیا ہے'۔

بھارتی وزیراعظم نے کہا کہ ہماری حکومت کی ترجیح خطے میں 'نچلی سطح پر جمہوریت کومضبوط کرنا ہے، حلقہ بندی تیزی سے کرنی ہوگی تاکہ انتخاب ہوسکیں اور جموں و کشمیر کو منتخب حکومت ملے جو کشمیر کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے'۔

بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا کہ اجلاس میں کشمیرکے 'مستقبل' پر بات ہوئی، 'ریاستی امور کی بحالی کے لیے حلقہ بندیاں اور پرامن انتخابات ایک اہم سنگ میل ہیں، جیسا کہ پارلیمنٹ میں وعدہ کیا گیا ہے'۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ اجلاس پر ملک کے اندر اور باہر سخت تنقید ہورہی ہے کیونکہ بھارت کی ہندو قوم پرست حکومت نے 2019 میں خطے کی حیثیت تبدیل کردی اور مقامی افراد کو اپنی زمینوں اور مقامی سطح پر نوکریوں کے حق سے محروم کردیا ہے۔

خیال رہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی حکومت کے اس اقدام کے بعد ہر سطح پر مزاحمت کی جارہی ہے، یہاں تک بھارت نواز سیاست دان اور سیاسی جماعتیں بھی اس اقدام کے خلاف ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی، صدارتی فرمان جاری

مودی کی زیر صدارت ہونے والے اس اجلاس میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے 14 سیاسی رہنماؤں نے شرکت کی، جن میں بھارتی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما بھی شامل تھے، بھارت کے بااثر ترین وزیر داخلہ امیت شاہ اور خطے میں بھارتی ایڈمنسٹریٹر منوج سنہا بھی اجلاس میں شریک تھے۔

بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر سے تین سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، ان کے بیٹے عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو بھی مدعو کیا تھا۔

امیت شاہ نے ان رہنماؤں کو گزشتہ برس 'گینگ اور ریاست مخالف عناصر' قرار دیا تھا اور اسی طرح بی جے پی کے دیگر رہنماؤں نے بھی ان پر سخت تنقید کی تھی حالانکہ انہیں کشمیر میں بھارت کے حامی سمجھا جاتا ہے۔

مودی حکومت نے جن رہنماؤں کو اجلاس کی دعوت دی تھی، ان میں شامل تین سابق وزرائے اعلیٰ کے علاوہ متعدد رہنماؤں کو 5 اگست 2019 کو گرفتار کرلیا تھا کیونکہ انہوں نے بھارت کے اس اقدام پر تنقید کی تھی۔

اجلاس میں شامل 4 جماعتوں نے بھارت کے ان اقدامات کے خلاف جدوجہد کے لیے اتحاد تشکیل دیا تھا۔

بھارتی وزیر داخلہ نے اجلاس کے حوالے سے کہا کہ حکومت نے خطے میں جمہوری عمل مضبوط کرنے پر زور دیا۔

دوسری جانب اتحاد کے ترجمان یوسف تریگامی نے اجلاس کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ انہیں مودی اور امیت شاہ کی جانب سے کوئی یقین دہانی نہیں کروائی گئی تاہم انہوں نے ہمارے تحفظات، مطالبات اور خواہشات سنیں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 اور 35اے کیا ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ اجلاس کے دوران مودی سے کہا گیا کہ خطے کی نیم خودمختاری کو بحال کردیا جائے۔

سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کی غیر آئینی، غیرقانونی اور غیر اخلاقی تبدیلیاں ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارتی قیادت سے کہا ہے کہ نئی دہلی کو پاکستان سے مذاکرات کرنے چاہیئں اور مسئلے کا حل تلاش کیا جائے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں