جارج فلائیڈ قتل کیس: مجرم پولیس اہلکار کو 22 سال قید کی سزا

اپ ڈیٹ 26 جون 2021
ہنپین کاؤنٹی کے ضلعی جج پیٹر کاہل نے کہا کہ جارج فلائیڈ کنبے کے دکھ اور درد کو سمجھنا ضروری ہے — فائل فوٹو: رائٹرز
ہنپین کاؤنٹی کے ضلعی جج پیٹر کاہل نے کہا کہ جارج فلائیڈ کنبے کے دکھ اور درد کو سمجھنا ضروری ہے — فائل فوٹو: رائٹرز

منیپولیس: منیسوٹا کے جج نے 46 سالہ افریقی نژاد امریکی شہری جارج فلائیڈ کے قتل کے جرم میں سابق پولیس افسر ڈیرک چوون کو 22 سال 6 ماہ قید کی سزا سنادی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سابق پولیس افسر ڈیرک چوون کو گزشتہ برس مئی میں جارج فلائیڈ کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا جس کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد 'سیاہ فام افراد کے خلاف پولیس گردی' کے خلاف عالمی مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔

جیوری نے 45 سالہ ڈیرک چوون کو جارج فلائیڈ کے قتل کے جرم میں غیر اعلانیہ سیکنڈ ڈگری قتل، تھرڈ ڈگری قتل اور سیکنڈ ڈگری قتل عام کے الزام میں مجرم قرار دیا۔

ڈیرک چوون کے خلاف فیصلے کو امریکی محکمہ پولیس میں بڑے پیمانے پر ایک اہم سزا کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

سزا سنائے جانے سے پہلے جارج فلائیڈ کے بھائیوں نے اپنی تکلیف کے بارے میں عدالت کو بتایا کہ ڈیرک چوون کی والدہ نے اپنے بیٹے کی بے گناہی پر اصرار کیا اور خود سابق پولیس افسر نے بھی جارج فلائیڈ خاندان سے مختصر طور پر تعزیت کی۔

ہنپین کاؤنٹی کے ضلعی جج پیٹر کاہل نے کہا کہ جارج فلائیڈ کنبے کے دکھ اور درد کو سمجھنا ضروری ہے۔

مزید پڑھیں: واشنگٹن سمیت امریکا بھر میں نسل پرستی کے خلاف ہزاروں افراد کا احتجاج

پیٹر کاہل نے کہا کہ میں ہوشیار بننے کی سازش نہیں کروں گا کیونکہ یہ مناسب وقت نہیں ہے، میں اپنی رائے کو عوامی رائے پر مسلط نہیں کر رہا لیکن ٹرائل کورٹ کے جج کا کام قانون کو حقائق پر لاگو کرنا ہے اور انفرادی نوعیت کے کیسز سے نمٹنا ہے۔

سماعت کا آغاز استغاثہ کے ساتھ ہوا جس میں جارج فلائیڈ کے اہل خانہ کے متعدد افراد سے عدالت سے خطاب کرنے کی درخواست کی گئی۔

جارج فلائیڈ کی 7 سالہ بیٹی گیانا پہلے ویڈیو ریکارڈنگ میں دکھائی دیں۔

انہوں نے ویڈیو میں کہا کہ میں ہر وقت اس کے بارے میں پوچھتی ہوں، میرے والد ہمیشہ مجھے دانت صاف کرنے میں مدد کرتے تھے۔

یہ پوچھے جانے پر کہ اگر وہ انہیں دوبارہ دیکھ سکتی تو وہ ان سے کیا کہیں گی، انہوں نے کہا کہ 'اگر ایسا ہوا تو میں ان سے کہوں گی میں آپ سے بہت پیار کرتی ہوں'۔

مزید پڑھیں: امریکا میں سیاہ فاموں کے حقوق کے لیے ہونے والی جنگ کی داستان

جارج فلائیڈ کے بھائی فلونائز فلائیڈ نے کہا کہ وہ جارج فلائیڈ کی موت کی ویڈیوز سے پریشان ہیں جو ڈیرک چوون کے مقدمے کی سماعت کے دوران ان گنت مرتبہ چلائی گئیں۔

ڈیرک چوون نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ 'اضافی قانونی معاملات' کی وجہ سے کوئی مکمل بیان نہیں دے سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'لیکن بہت ہی مختصر طور پر میں جارج فلائیڈ خاندان سے اظہار تعزیت کرنا چاہتا ہوں'۔

جارج فلائیڈ کا قتل اور امریکا میں احتجاج

واضح رپے کہ مئی 2020 میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام شہری فارج فلائیڈ کی موت کے بعد امریکا بھر میں احتجاج ہوگیا تھا۔

ان احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب ایک پولیس افسر کی ویڈیو وائرل ہوئی جسے ایک سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی گردن پر گھٹنا رکھے دیکھا جاسکتا تھا۔

سفید فام پولیس افسر سے جارج فلائیڈ زندگی کی بھیک مانگتے رہے لیکن وہ پولیس افسر 9 منٹ تک ان کی گردن پر ٹانگ رکھ کر بیٹھا رہا جس سے بالآخر اس کی موت واقع ہو گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ٹوئٹر نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ویڈیو ڈیلیٹ کردی

یہ ویڈیو چند گھنٹوں میں ہی دنیا بھر میں وائرل ہوگئی تھی جس کے بعد امریکا بھر میں مظاہرے، پرتشدد واقعات اور توڑ پھوڑ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

جارج کی ہلاکت میں ملوث سفید فام پولیس اہلکار ڈیرک چوون پر دوسرے درجے کے قتل کا مقدمہ چلایا گیا۔

سیاہ فام شہری کی موت کے بعد مینی ایپلس میں ہونے والے پرتشدد واقعات اور احتجاج کی گزشتہ 50 سال میں کوئی مثال نہیں ملتی، جہاں آخری مرتبہ اس طرح کے حالات 1968 میں مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے قتل کے بعد پیدا ہوئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں