ترمیم شدہ سوشل میڈیا قوانین پر حکومت اور انٹرنیٹ کمپنیوں کے مابین تنازع

اپ ڈیٹ 29 جون 2021
مقامی اسٹیک ہولڈرز جنہوں نے مشاورت کے عمل میں حصہ لیا اسی طرح کے جذبات اور خدشات کا اظہار کیا —فائل فوٹو: اے ایف پی
مقامی اسٹیک ہولڈرز جنہوں نے مشاورت کے عمل میں حصہ لیا اسی طرح کے جذبات اور خدشات کا اظہار کیا —فائل فوٹو: اے ایف پی

انٹرنیٹ کمپنیوں نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کے ترمیم شدہ سوشل میڈیا قوانین کے خلاف تحفظات کا اظہار کیا ہے جس کے حالیہ مسودے میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی اور کمپنیوں کے بقول سابقہ ورژن کے مقابلے میں موجودہ مسودہ 'رجعت پسند' ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا کے قوانین کا تیسرا ترمیم شدہ مسودہ بعنوان 'غیر قانونی آن لائن مواد کے قواعد 2021 کو ہٹانا' وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی مواصلات (ایم او ای ٹی ٹی) نے رواں ماہ کے شروع میں شائع کیا تھا۔

مزید پڑھیں: میڈیا کے مجوزہ ریگولیٹری ادارے پر بات چیت کیلئے حکومتی کمیٹی تشکیل

ڈان کو ایشیا انٹرنیٹ کولیشن (اے آئی سی) کے منیجنگ ڈائریکٹر جیف پین نے ای میل پر بتایا کہ اے آئی سی اور اس کی رکن کمپنیاں مجوزہ نظرثانی سے مایوس ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کئی ماہ سے صنعت کی جانب سے متعدد مرتبہ آرا دینے کے باوجود مسودے کے قوانین میں اب بھی متعدد پریشان کن دفعات شامل ہیں، جیسے ڈیٹا لوکلائزیشن اور مقامی موجودگی کی ضرورت، جو ملک کے ڈیجیٹل نمو اور تبدیلی کے ایجنڈے کو نقصان پہنچاتی ہیں۔

مشاورت کے عمل پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اے آئی سی نے ترمیم شدہ مسودے پر وزارت کو تجاوز پیش کردی ہیں۔

تجاویز کہا گیا کہ تازہ ترین مسودہ جو صرف معمولی تبدیلیوں کے ساتھ پچھلے مسودے کو نقل کیا گیا ہے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مشاورت کا عمل خاطر خواہ تبدیلیوں کے پیش نظر نہیں اٹھایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈیجیٹل میڈیا پر اشتہارات دینے کیلئے حکومتی میکنزم پر کام جاری

اے آئی سی اور اس کی رکن کمپنیوں کو قوانین کے مختلف پہلوؤں پر تشویش ہے جس میں اعداد و شمار کو حذف کرنا، مواد کو روکنے کے لیے مقررہ وقت، ڈیٹا لوکلائزیشن سمیت مقامی موجودگی کی ضروریات سمیت سرکاری ایجنسیوں کو خفیہ مواد کو ہٹانے کی اہلیت شامل ہیں۔

اس ترمیم شدہ قوانین کے تحت انٹرنیٹ کمپنیوں کو پاکستان میں ایک فزیکل آفس قائم کرنے اور ملک میں موجود شکایات افسر کے تقرر کی ضرورت ہے۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ پاکستان، بھارت کی طرح شکایت کے ازالے کے لیے افسران کے تقرر پر اصرار کرتا ہے اور بھارت میں اسی تنازع کی بنیاد پر چند ہفتے قبل ٹوئٹر کے ایک افسر نے استعفیٰ دے دیا تھا جو ملک کے ڈیجیٹل میڈیا کے قوانین کے تحت تھا۔

اے آئی سی نے نشاندہی کی کہ قواعد کے تحت ریاستی اداروں کی خفیہ ایجنسیوں کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ شکایت کے بغیر ہی ایجنسیاں، پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے تعاون سے مواد کو حذف کر سکیں گی۔

مزید پڑھیں: میڈیا اداروں نے ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کی تجویز مسترد کردی

انہوں نے کہا کہ 'یہ مکمل طور پر شفافیت کی اقدار کے منافی ہے'۔

اے آئی سی نے وزارت آئی ٹی پر زور دیا کہ وہ اس صنعت کی آرا کو شامل کریں تاکہ پاکستان کی ڈیجیٹل نمو اور تبدیلی کی حمایت کی جاسکے۔

مقامی اسٹیک ہولڈرز، جنہوں نے مشاورت کے عمل میں حصہ لیا، اسی طرح کے جذبات اور خدشات کا اظہار کیا۔

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی نگہت داد نے کہا کہ مشاورت کا عمل صرف اس صورت میں معنی خیز ہے جب اسٹیک ہولڈرز کی سفارشات اور خدشات حتمی نتائج سے وابستہ ہوں اور اس کی عکاسی کریں۔

انہوں نے کہا کہ سول سوسائٹی اور دیگر افراد کو میز پر بٹھانے سے مشاورت مکمل نہیں ہوتی۔

'بولو بھی' کے ڈائریکٹر اسامہ خلجی کے مطابق مشاورت کا عمل اہم اسٹیک ہولڈرز کی قابلیت کی 'توہین' تھا کیونکہ تبدیلی کے وعدوں کے باوجود تیسری مرتبہ بمشکل ہی کوئی تبدیلی کی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں