میانمار: فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کرنے والے ہزاروں مظاہرین رہا

اپ ڈیٹ 01 جولائ 2021
ریاستی منتظم کونسل کی جانب سے کریک ڈاؤن میں 880 سے زائد شہری ہلاک ہوئے تھے — فوٹو: اے پی
ریاستی منتظم کونسل کی جانب سے کریک ڈاؤن میں 880 سے زائد شہری ہلاک ہوئے تھے — فوٹو: اے پی

میانمار کی انتظامیہ بغاوت کے خلاف احتجاج کرنے والے 2 ہزار سے زائد مظاہرین کو رہا کر دیا جن میں وہ مقامی صحافی بھی شامل ہیں جنہوں نے جنتا کے خونی کریک ڈاون کے خلاف تنقیدی رپورٹنگ کی تھی۔

فروری میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں آنگ سان سوچی اور ان کی حکومت کا تختہ الٹائے جانے کے بعد شدید احتجاجی مظاہرے کیے گئے تھے، جس پر فوج نے ظالمانہ ردعمل دیا تھا۔

مقامی مانیٹرنگ گروپ کے مطابق ریاستی منتظم کونسل کی جانب سے کریک ڈاؤن میں 880 سے زائد شہری ہلاک اور لگ بھگ 6 ہزار 500 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔

ایک رپورٹر کے مطابق انتظامیہ کی جانب سے قیدیوں کو رہا کرنے کے اعلان کے بعد پیاروں کی رہائی کی امید میں تقریباَ 2 سو سے زائد افراد نوآبادیاتی دور کی ینگون جیل کے باہر جمع ہوگئے۔

مقامی میڈیا پر نشر ہونے والی ویڈیو میں دیکھا گیا کہ رکاوٹوں کو پار کرنے آنے والے افراد میں سے کئی نے بارش سے بچنے کے لیے چھتری لے رکھی تھی جبکہ ایک خاتون نے پھول اٹھا رکھے تھے۔

جیل کے باہر اپنی بیٹی کی رہائی کا انتظار کرنے والے ایک شخص کا کہنا تھا کہ انہیں اپنی بیٹی پر فخر ہے، انہوں نے کہا کہ وہ جب تک جیت نہیں جاتے تب تک لڑائی جاری رکھنے کے لیے بیٹی کی حوصلہ افزائی کریں گے۔

جنتا کی انفارمیشن ٹیم نے اپنے بیان میں کہا کہ پورے ملک میں اب تک 2 ہزار 296 احتجاجی مظاہرین کو رہا کیا جاچکا ہے۔

زیر حراست قیدیوں کو رہائی کے لیے مقامی پولیس اسٹیشن لے جانے والی بسوں کی کھڑکیوں سے زیر حراست افراد نے مخصوص احتجاجی انداز میں سیلوٹ کیا۔

مقامی میڈیا نے تصاویر شائع کیں جن میں شمالی قصبے میتکینا میں زیر حراست افراد سے بھرے ٹرک کو لے جاتے دیکھا گیا۔

ایک میڈیا ادارے نے کہا کہ رہائی پانے والوں میں صحافی کے زون وے بھی شامل ہیں۔


یہ خبر یکم جولائی 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں