قومی سلامتی اجلاس سے پتا چلا عمران خان کی اہمیت نہیں، مولانا فضل الرحمٰن

اپ ڈیٹ 04 جولائ 2021
مولانا فضل الرحمٰن نے پی ڈی ایم کے جلسے سے خطاب میں عمران خان کوامریکی تہذیب کا نمائندہ قرار دیا—فوٹو: ڈان نیوز
مولانا فضل الرحمٰن نے پی ڈی ایم کے جلسے سے خطاب میں عمران خان کوامریکی تہذیب کا نمائندہ قرار دیا—فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے وزیراعظم کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی میں عمران خان کو کسی نے نہیں بلایا اور پاکستان کی سیاست کا وہ غیر ضروری حصہ ہیں۔

سوات میں پی ڈی ایم کے جلسے سے خطاب میں مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ طویل عرصے کے بعد سوات میں پی ڈی ایم کے زیرانتظام عوامی اجتماع کا ایک مرتبہ پھر آغاز کردیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: موقع ملا تو کے پی کو پنجاب سے آگے لے کر جائیں گے، شہباز شریف

انہوں نے کہا کہ میں صوبہ خیبر پختونخوا کے نوجوانوں، بزرگوں، ماؤں اور بہنوں اور بالخصوص سوات اور مالاکنڈ کے دوستوں کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے لمبے تعطل کے بعد دوبار آغاز کیا تو کامیاب جلسہ منعقد کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب یہ ہے عوام کا جذبہ سرد نہیں ہوا اور ملک میں سیاسی اور آئینی حکمرانی کے لیے پرجوش ہیں، انشااللہ پاکستان سے اس ناجائز حکومت کا خاتمہ کرکے ہی دم لیں گے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ میں بڑے عرصے سے کہہ رہا ہوں کہ عمران خان پاکستان کی سیاست کا غیر ضروری حصہ ہے، آپ نے قومی سلامتی کے اجلاس میں ان کی اہمیت دیکھی، وزیراعظم ہوتے ہوئے ان کو شرکت کی ضرورت نہیں پڑی، نہ کسی نے بلایا، نہ کوئی آیا اور اس طرح پتا چلا کہ پاکستان کی سیاست میں حکومت بنانے سے پہلے بھی اس کی اہمیت نہیں تھی اور حکومت بنانے کے بعد بھی اس کی اہمیت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایسی ناجائز حکومتیں غلام قوموں پر حکومت کرتی ہیں، آزاد منش قوموں پر ایسی حکومتیں مسلط نہیں کی جاتیں، جنہوں نے، جن کے آبا و اجداد اور بزرگوں نے برطانوی سامراج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی ہوں وہ آج اس مغربی تہذیب کے پیداوار اس گماشتے کو اپنے اوپر مسلط نہیں دیکھ سکتے اور اس سے آزادی حاصل کرکے رہیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس جانے کے دن قریب آگئے ہیں، کبھی امریکا، کبھی برطانیہ کے خلاف بات کردیتا ہے اور پاکستانی قوم کے اندر جو نعرے اور جو باتیں بڑی مقبول ہوتی ہیں، آج پھر ان کا سہارا لے رہا ہے۔

وزیراعظم عمران خان پر تنقید کرتےہوئے انہوں نے کہا کہ میں ان کو کہنا چاہتا ہوں کہ آپ آزمائے ہوئے ہو، چلے ہوئے کارتوس ہو، چلا ہوا کارتوس بندوق میں دوبارہ نہیں دیا جاتا۔

انہوں نے کہا کہ آج پھر امریکا اور جنرل پرویز مشرف کے خلاف بھی بول رہا ہے اور کہتا ہے جنرل پرویز مشرف نے غلط فیصلے کیے حالانکہ جب پرویز مشرف غلط فیصلے کرتا تھا تو آپ کہتے تھے کہ اس کے پاس اس سے اچھا آپشن موجود نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خبردار کیا تھا، افغانستان سے متعلق پاکستان اپنی پالیسی میں سنجیدگی لے آئے، مولانا فضل الرحمٰن

ان کا کہنا تھا کہ تم پرویز مشرف کے سب سے بڑے ایجنٹ اور بڑے سپاہی تھے، تم نے ریفرنڈم میں ان کا ساتھ دیا تھا، امریکا خود کہتا ہے کہ پرویز مشرف ہمیں لوگ مہیا کرتا تھا اور ہم ان کو گوانتاموبے لے جاتے تھے تو اس وقت تم پرویز مشرف کے شانہ بشانہ کھڑے تھے اور ان کے جرائم میں شریک تھے۔

انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ تم آج بھی امریکا اور امریکی تہذیب کے نمائندے ہو اور برطانیہ میں تمہارے جائز اثاثے ہوں یا ناجائز اثاتے ہوں وہاں موجود ہیں۔

سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ یہ باتیں اب نہیں چلیں گی، یہ ساری چیزیں ڈراما ہیں، امریکی کی دوستی اس کا اپنا ایک معیار ہے اور پاکستان میں اس معیار پر وہی اترتا ہے جو سی پیک کو متنازع بناتا ہے، سی پیک کا اتنا بڑا منصوبہ جس سے پاکستان کا روشن مستقبل وابستہ تھا اس کو تباہ کردیا۔

انہوں نے کہا کہ آج چین کو ناراض کردیا گیا جس کے نتیجے میں وہ ایران میں جا کر 25،25 سال کے معاہدے کر رہا ہے، آپ کو چین کے ساتھ معاہدے یاد نہیں آرہے لیکن کہتےہو2001 میں ہم نے معاہدہ کیا تھا کہ ہم امریکا کو ایئربیسز دیں گے، امریکا کو فضائی راہداری دیں گے۔

'امریکا کو فضائی راہداری دے چکے ہو اور قوم سے جھوٹ بول رہے ہو'

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ایک دو دن پہلے جو انٹرویو آپ نے دیا کہ ‘بالکل نہیں’ تو عمران خان سن لو کہ اس نے اڈے مانگے کب ہیں کہ تم انکار کر رہے ہو، اس نے فضا مانگی ہے، فضائی راہداری مانگی ہے اور وہ تم دے چکے ہو، قوم کے سامنے جھوٹ مت بولو۔

انہوں نے کہا کہ جو وہ چاہتا تھا وہ تم دے چکے ہو، کراچی ایئرپورٹ پر ان کے طیارے اتر چکے ہیں، وہاں سے تیل بھر چکے ہیں اور تم کہتے ہوں ہم پاکستان کی سرزمین نہیں دیں گے، تم پاکستان کی سرزمین بھی دے چکے ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ تم پاکستان کی فضائیں بھی دے چکے ہو لیکن اس طرح کی حماقتیں کرنا پاکستان کو مشکل میں ڈالنے والی بات ہے، افغانستان میں حالات تبدیل ہورہے ہیں، وہاں سے امریکا شکست کھا کر جا رہا ہے بلکہ تقریباً نکل چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کا 70، 80 فیصد علاقہ تحریک طالبان کے ہاتھ میں دوبارہ آچکا ہے، وہاں مسلسل ان کو فتوحات مل رہی ہیں لیکن ان حالات میں ہماری غلط پالیسیاں افغانستان کو ہم سے دور کرسکتی ہیں، ایران ہم سے دور ہوسکتا ہے، چین ہم سے دور ہو رہا ہے، بھارت تو ہمارا دشمن ہے، ہم ایشیا میں تنہا ہوتے جا رہے ہیں اور اپنے مفادات کا تحفظ بھی نہیں کرسکیں گے۔

وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کے جرائم میں تم برابر کے شریک رہے ہو اس سے کیسے بری الذمہ قرار دے رہے ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ تم نے امریکا کی پالیسیوں کی تائید میں پہلے آواز بلند کی پھر دیکھا کہ کس طرح زینہ بنا کر اقتدار تک پہنچوں تو تم نے امریکا خلاف کچھ باتیں کیں جو پاکستانیوں کے مقبول نعرے تھے۔

انہوں نے کہا کہ جب اقتدار ملا تو ایک،ایک بات کو توڑتے رہے، ہر بات پر یوٹرن لیتے رہے اور پھر تمھاری اقتدار کی کشتی ڈوب رہی ہے تو پھر تم ان نعروں کو اٹھا رہے ہو تاکہ قوم پھر اعتبار کرلے لیکن اب تم قابل اعتبار نہیں رہے، جتنا تم قوم، نوجوان اور نئی نسل کو جتنا دھوکا دے سکتے تھے، وہ تم دے چکے ہو اور اب قوم تمھارے دھوکے میں آنے کو تیار نہیں ہے۔

‘اداروں نے حکومت کی تائید کی تو پشت بانی کے مجرم ہوں گے’

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ میں یہ بھی بتادینا چاہتا ہوں کہ اس کی پشت پناہی ‘ہماری اسٹبلشمنٹ اور اداروں’ کی طرف سے ہورہی ہے یہ ایک ناجائز اور غیر آئینی حکومت کی ہو رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر اداروں کی یہ تائید اور پشت بانی برقرار رہی تو جس طرح یہ ناجائز حکمرانی کا مجرم ہے، اسی طرح ادارے بھی اس غیر آئینی حکمرانی کی پشت بانی کی مجرم قرار پائیں گے’۔

انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ کیا کرنا ہے، ہم نے ایک آزاد، جمہوری، معاشی، خوش حال اور اسلامی مستقبل تراشنا ہے اور اس کی طرف بڑھنا ہے اور اس کے لیے اس ذہنیت اور فکر کا خاتمہ کرنا ہوگا۔

پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا کہ ‘2013 میں ایک وفد نے آکر کہا کہ ہم نے پشتون بیلٹ کو اس لیے ان کے حوالے سے کیا ہے کہ پشتون بیلٹ میں مذہب کی جڑیں گہری ہیں اور ان جڑوں کو اکھاڑنے کے لیے اسے بہتر آدمی نہیں تھا’۔

انہوں نے کہا کہ ‘تم نے ہمارے عملما، مساجد اور آئمہ کو خریدنے کی کوشش کی ہے لیکن مجھے اپنے علما، آئمہ پر فخر کرتا ہوں کہ انہوں نے غربت کے باوجود آپ کے پیسے، مغربی امداد اور ڈالر کی پیش کش کو مسترد کردیا’۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں آئینی مستقبل کی طرف بڑھنا ہے اور اس کے لیے ایسی حکومتوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں