مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے کہا ہے کہ لاہور میں گزشتہ ماہ ہونے والے دھماکے کے تانے بانے پاکستان کے اندر بھارت کی جانب سے ہونے والی دہشت گردی سے جڑتے ہیں اور ماسٹر مائنڈ کا تعلق بھارت اور اس کی خفیہ ایجنسی 'را' سے ہے۔

اسلام آباد میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور آئی جی پنجاب انعام غنی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے معید یوسف نے کہا کہ ‘آئی جی پنجاب نے اس واقعے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب کے ہمراہ بات کی تھی تو بتایا تھا کہ ہمارے پاس اطلاع اور ثبوت ہیں کہ کوئی غیر ملکی خفیہ ایجنسی بھی ملوث ہے’۔

مزید پڑھیں: لاہور: جوہر ٹاؤن میں دھماکا، پولیس اہلکار سمیت 3 افراد جاں بحق

معید یوسف نے کہا کہ ‘آج میں کسی ابہام کے بغیر وثوق سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس سارے حملے کے تانے بانے بھارت کی پاکستان کے خلاف اسپانسر شپ دہشت گردی سے جڑتے ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ان کے فون اور دیگر جو آلات ملے ہیں اس کا فرانزک تجزیہ ہوا ہے، مرکزی ماسٹر مائنڈ اور معاونین کا تعلق بھی بھارت سے جڑتا ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘جو ماسٹر مائنڈ ہے اس کا تعلق ہمیں بالکل واضح طور پر معلوم ہے، وہ بھارت کا شہری ہے، بھارت میں رہتا ہے اور 'را' سے اس کا بالکل واضح طور پر تعلق ہے’۔

یاد رہے کہ 23 جون کو لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں پولیس اہلکار سمیت 3 افراد جاں بحق اور 21 زخمی ہوگئے تھے۔

سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے پولیس اہلکار سمیت 3 افراد کے جاں بحق اور 21 کے زخمی ہونے کی تصدیق کی تھی۔

پولیس نے ابتدائی رپورٹ میں بتایا تھا کہ دھماکے میں 15 سے 20 کلو گرام دھماکا خیز مواد استعمال ہوا اور دھماکے میں غیرملکی ساختہ مواد استعمال ہوا۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ دھماکے میں بال بیرنگ، کیل اور دیگر بارودی مواد استعمال ہوا اور دھماکا خیز مواد کار میں نصب تھا اور دھماکا کنٹرول ڈیوائس سے کار میں کیا گیا۔

پولیس نے بتایا تھا کہ دھماکے کی جگہ 3 فٹ گہرا اور 8 فٹ چوڑا گڑھا پڑا اور دھماکے سے 100 مربع فٹ سے دور تک علاقہ متاثر ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور: جوہر ٹاؤن بم دھماکے میں استعمال ہونے والی کار کا مالک گرفتار

پریس کانفرنس کے دوران مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے حملے کے ماسٹر مائنڈ کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے مزید کہا کہ ‘ہمارے پاس ان کے جعلی نام، ان کی اصل شناخت اور وہ کہاں موجود ہیں، ان تمام چیزوں کی نشان دہی ہوچکی ہے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘بھارت کی یہ کارروائیاں پہلی دفعہ نہیں ہیں، ہم بار بار یہ بات کرتے رہے ہیں کہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں بھارت ملوث ہے، اگر کسی کو یہ سوال، ابہام یا شک ہے کہ چلیں بھارت کے اندر سے ہوا لیکن کیا ریاست ملوث ہے تو میں یہ بتاوں کہ پہلے عموماً ایسی چیز ہوتی نہیں تھی’۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘جس دن یہ حملہ ہوا ہے، اس دن ہمارے تفتشی ڈھانچے پر ہزاروں منظم سائبر حملے ہوچکے ہیں، ہم جس ہائبرڈ وار فیئر کی بات کرتے ہیں جو دنیا ہمارے خلاف کر رہی ہے، یہ اس کی ایک مثال ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اس دن سائبر حملے کیے گئے اور اس لیے کیے گئے کہ ہم جو تفتیش کررہے ہیں اور دہشت گردی کے نیٹ ورک کی نشان دہی کر رہے ہیں، وہ فعال نہ ہوسکیں، اس میں دارڈیں آئیں اور وقت اتنا مل جائے کہ یہ نیٹ ورک ادھر ادھر ہوجائے اور اس جگہ سے نکل جائے’۔

ہمسایہ ریاست کے عمل دخل پر کوئی شک نہیں، معید یوسف

معید یوسف نے کہا کہ ‘انہوں نے کوشش کی لیکن ان کو وقت نہیں ملا کیونکہ ہم سائبر سیکیورٹی پر بھی کام کرکے اتنے مضبوط ہوگئے ہیں کہ اللہ کا شکر ہے یہ کامیابی ہمیں حاصل ہوئی’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ہمیں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ہے کہ جوہری ٹاؤن کا دھماکا اور یہ سائبر حملے آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور ایک ہی سوچ اور منصوبے کا حصہ ہیں کیونکہ وہ اس تعداد میں کیے گئے، جس سے کسی قسم کا شک نہیں رہ جاتا کہ اس میں ہماری ہمسایہ ریاست کا عمل دخل موجود ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے پچھلے سال نومبر میں ایک جامع ڈوزیئر دیا تھا اور اسی طرح کی پریس کانفرنس کی تھی، دنیا کی انٹیلی جنس ایجنسیز اور بڑے، مضبوط اور اہم ممالک کو تمام معلومات اس سطح تک دی کہ کون کہاں سے فون کر رہا تھا، بھارت کے کون سے بینک سے پیسے منتقل ہورہے تھے، کون سے فون کے ریکارڈ تھے جو پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کے لیے استعمال کیے گئے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘یہ واقعہ بھی اسی تسلسل میں ایک اور کڑی ہے، جہاں ہمارا دشمن یہ کام بدستور کرتا جارہا ہے’۔

مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ ‘اس حملے پر ہونے والے اخراجات کی شروعات بھی بھارت سے ہو رہی ہے، بینک اکاؤنٹس موجود ہیں، پاکستان میں تیسرے ملک کے ذریعے پیسے بھجوائے گئے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘ساری دنیا ہمیں بار بار فیٹف، یہ اور وہ بات کرتی ہے، اب وقت آگیا ہے کہ اصل مجرم کی طرف اپنی نظر دوڑائیں اور واقعی ہی یہ سیاسی نہیں بلکہ ٹیکنیکل پلیٹ فارمز ہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘دنیا میں بہت سے اور ادارے ہیں جن کا کام ہے ان چیزوں کی نشان دہی کریں تو اب کارروائی کرنے کے لیے آپ کو اس سے زیادہ ثبوت نہیں چاہیئں، جو ہمیں اس سارے واقعے سے ملے ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘عید گل کا بنیادی تعلق افغانستان سے ہے، اس کے بعد یہ پاکستان میں بسا اور اس کے پاس پاکستان کا شناختی کارڈ بھی ہے، اسی لیے ہم کہتے ہیں افغان ہمارے بہن اور بھائی ہیں، اب ان کی باعزت واپسی ہو’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘دنیا ہمیں بار بار سوال کرتی ہے کہ یہاں ایسے افغان موجود ہیں جنہیں پکڑنا ضروری ہے جو افغانستان میں کارروائیاں کرتے ہیں اور ہم کہتے رہے ہیں کہ جہاں 30 لاکھ مہاجرین موجود ہوں انہی میں یہ اپنے آپ کو سمو لیتے ہیں’۔

معید یوسف نے کہا کہ ‘یہ بندہ کسی مہاجر کیمپ میں نہیں بلکہ پاکستان میں پنجاب میں رہتا تھا، اس لیے بجائے ہم پر انگلی اٹھانے کے ہم چاہتے ہیں بین الاقوامی قانون کے مطابق ان کی باعزت واپسی ہو اور جب ان کی واپسی ہوجائے تو پھر ہم سے سوال کریں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘وزیراعظم کی واضح ہدایت ہے کہ پاکستان تمام قانونی اور سیاسی طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے اس بین الاقوامی نیٹ ورک کو منظر عام پر لائے گا اور ہمیں عدالت کے سامنے پیش کرنے کے لیے جن ملزمان کی ضرورت ہے، ان کو لانے کے لیے بھی تمام کوششیں کریں گے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘بھارت کا اصل چہرہ جیسے پہلے دنیا کے سامنے لائے ہیں اسی طرح دوبارہ بھی لے کر آئیں گے’۔

آئی جی پنجاب

پریس کانفرنس کے آغاز میں آئی جی پنجاب نے جوہر ٹاؤن دھماکے کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ 23 جون کو صبح 11 بج کر 9 منٹ پر جوہر ٹاؤن کے بلاک ای میں وی وی آئی ای ڈی دھماکا ہوا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ دھماکے کے نتیجے میں 3 شہری جاں بحق اور 2 پولیس افسران سمیت 22 زخمی ہوئے، 12 گاڑیوں اور 7 گھروں کو شدید نقصان پہنچا تھا۔

انہوں نے کہا کہ دھماکے کے فوری بعد پولیس اور محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے موقع پر پہنچ کر تفتیش شروع کی۔

آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ دھماکے کے 16 گھنٹے کے اندر سی ٹی ڈی نے نہ صرف پورے منصوبے کو بے نقاب کیا بلکہ اس میں جنتے لوگ شامل تھے، ان کے ناموں اور پہنچان تک بھی فوری پہنچ گئے۔

انہوں نے اس موقع پر میڈیا کے سامنے تصاویر پیش کیں اور کارروائی کے لیے فنڈنگ کرنے اور کارروائی کرنے میں استعمال ہونے والے افراد کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے پیٹر نظر آرہا ہے جو کراچی کا رہنے والا ہے اور 55 سال سے زیادہ عمر ہے جبکہ زیادہ عرصہ ملک سے باہر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سے باہر وہ تھری اسٹار ہوٹل بھی چلاتا رہا ہے اور کیمرے بھی دیتا رہا ہے اور کچھ عرصے کے لیے اسٹیل کا کام بھی کرتا رہا ہے۔

ملزم پیٹر کی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ اصل میں پاکستان کے اندر کارروائی کو باہر سے منسلک کرتا ہے اور وہ تفصیلات بھی ہمارے پاس موجود ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں