بھارتی ہندوؤں کا خیال ہے کہ تقسیمِ ہند مسلمانوں کے ساتھ تعلقات کیلئے بہتر تھی، سروے

اپ ڈیٹ 05 جولائ 2021
امریکی سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ بھارت میں زیادہ تر ہندوؤں کا ماننا ہے کہ 1947 کی تقسیم ہندو، مسلم تعلقات کے لیے بہتر تھی — فائل فوٹو:اے پی
امریکی سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ بھارت میں زیادہ تر ہندوؤں کا ماننا ہے کہ 1947 کی تقسیم ہندو، مسلم تعلقات کے لیے بہتر تھی — فائل فوٹو:اے پی

واشنگٹن: امریکی سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ بھارت میں زیادہ تر ہندوؤں کا ماننا ہے کہ 1947 کی تقسیم ہندو، مسلم تعلقات کے لیے بہتر تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پیو ریسرچ سینٹر واشنگٹن کے سروے میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ہندوؤں کی اکثریت کے خیال میں ’حقیقت میں بھارتی ہونے کے لیے ہندی بولنا اور ہندو ہونا بہت ضروری ہے‘۔

یہ سروے بھارت میں تقریباً 30 ہزار افراد سے آمنے سامنے انٹرویوز پر مبنی ہے جو ریسرچ سینٹر نے 2019 کے آخر اور 2020 کے اوائل کے درمیان 17 زبانوں میں کیے۔

سروے میں بتایا گیا کہ ’تقسیم کے سات دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے بعد سروے میں انٹرویو کیے گئے جن میں 48 فیصد مسلمانوں کا کہنا تھا کہ برصغیر کی تقسیم، ہندو اور مسلمانوں کے تعلقات کے لیے بُری تھی، دس میں سے صرف 3 مسلمانوں نے اسے بہتر قرار دیا‘۔

مزید پڑھیں: بھارت: ہندو لڑکی کو مسلمان گھرانے کی بہو دکھانے کے اشتہار پر تنازع

رپورٹ کے مطابق ’تاہم ہندوؤں کی سوچ اس کے برعکس ہے، 43 فیصد ہندو کہتے ہیں کہ تقسیم ہندو اور مسلمانوں کے تعلقات کے لیے فائدہ مند تھی جبکہ 37 فیصد کا کہنا ہے کہ یہ نقصان دہ تھی‘۔

اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سکھوں کا مسلمانوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ماننا ہے کہ ’یہ تقسیم ہندو، مسلم تعلقات کے لیے بُری تھی، دو تہائی سکھ (66 فیصد) کا یہ مؤقف ہے‘۔

سروے کرنے والوں کو یہ بھی معلوم ہوا کہ ہندوؤں میں قومی شناخت سیاست کے ساتھ جڑی ہے۔

ان ہندوؤں میں بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حمایت زیادہ پائی جاتی ہے جو اپنی مذہبی شناخت اور ہندی زبان کو حقیقتاً بھارتی ہونے کے لیے جوڑتے ہیں۔

2019 کے عام انتخابات میں ہندو رائے دہندگان میں سے 60 فیصد یہ ضروری سمجھتے تھے کہ حقیقتاً بھارتی ہونے کے لیے ہندی بولنا اور ہندو ہونا ضروری ہے اور صحیح معنوں میں بی جے پی کے حق میں ووٹ ڈالنا چاہیے۔

اس کے مقابلے میں 33 فیصد اس مؤقف سے اتفاق نہیں کرتے۔

تقریباً تین چوتھائی ہندو (72 فیصد) کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص گائے کا گوشت کھائے تو وہ ہندو نہیں ہو سکتا۔

اس کے علاوہ 49 فیصد ہندوؤں کا کہنا ہے کہ کوئی شخص ہندو نہیں ہوسکتا اگر وہ خدا پر یقین نہیں رکھتا اور 48 فیصد کا کہنا ہے کہ ہندو ہونے کے لیے مندر جانا ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت میں کورونا کی صورتحال اور مودی سرکار کی خود ستائشی اور تکبر

اسی طرح تین چوتھائی بھارتی مسلمانوں (77 فیصد) کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص سور کا گوشت کھاتا ہے تو وہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔

60 فیصد مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص خدا پر ایمان نہیں رکھتا تو وہ مسلمان نہیں ہوسکتا اور 61 فیصد کا کہنا ہے کہ مسلمان ہونے کے لیے مسجد جانا ضروری ہے۔

سروے کرنے والوں کو یہ بھی معلوم ہوا کہ بھارتی، دوستی کرتے وقت عام طور پر اپنے مذہبی گروہ سے وابستہ رہتے ہیں۔

ہندوؤں کی بھاری اکثریت یہ کہتی ہے کہ زیادہ تر یا ان کے تمام قریبی دوست بھی ہندو ہیں۔

یہاں تک کہ سکھوں اور جین مذہب کے ماننے والوں کی بھی ایک بڑی اکثریت کا کہنا ہے کہ ان کے دوست بنیادی طور پر یا مکمل طور پر ان کے مذہب سے ہی ہیں۔

45 فیصد ہندو کہتے ہیں کہ وہ اپنے پڑوس میں دیگر مذاہب کے لوگوں کو نہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔

ہر 3 میں سے ایک ہندو (36 فیصد) کا کہنا ہے کہ وہ اپنے پڑوس میں مسلمانوں کے قیام کو پسند نہیں کرتے، جین مذہب کے ماننے والوں میں 54 فیصد کا کہنا ہے کہ وہ مسلمان پڑوسی کو قبول نہیں کریں گے جبکہ تقریباً تمام جین (92 فیصد) کہتے ہیں کہ وہ ہندو پڑوسی کو قبول کرنے پر راضی ہوں گے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Talha Jul 05, 2021 02:56pm
aik achi news laikin aisay survey haqaiq nahin badal saktey…...