اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔


'خواتین آدھا آسمان تھامتی ہیں' — مائو زے تنگ

عوامی جمہوریہ چین کے بانی مائو زے تنگ سے منسوب یہ قول تقریباً ایک صدی پرانا ہے۔ اس ایک صدی میں چین نے خواتین کے حقوق کے لیے بہت کام کیا ہے۔ آج کے چین میں عورت اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کے لیے آزاد ہے۔ اس کے اس حق کی رکھوالی ریاست اور اس کا قانون کرتا ہے لیکن چین ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔

چین کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو خواتین کا حال پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

قدیم چین میں عورت کی زندگی کا مقصد مرد کی زندگی بنانا اور اسے خوش رکھنا تھا۔ مرد نہیں تو وہ نہیں والا معاملہ تھا۔ اگر کسی کا منگیتر یا شوہر فوت ہوجاتا تو اس سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ اپنی ساری زندگی اس کے نام پر گزار دے۔ ایک جدید کنفوشس فلسفی چھنگ یی کے مطابق ’ایک بیوہ کے لیے فاقے سے مرجانا دوسری شادی کرکے اپنی قدر کھونے سے بہتر ہے‘۔ یاد رہے کہ یہاں 13ویں صدی کی بات ہو رہی ہے۔

آج کے چین میں عورت اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کے لیے آزاد ہے
آج کے چین میں عورت اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کے لیے آزاد ہے

آج کے چین میں کسی عورت کو یہ قول بتایا جائے تو وہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوجائے گی۔ اسے یقین ہی نہیں آئے گا کہ کسی زمانے میں چین ایسا بھی تھا۔

10ویں صدی سے 20ویں صدی کے اوائل تک چین میں خواتین کی فُٹ بائنڈنگ یا 'پاؤں کو پابند' کرنے کا رواج بھی عام تھا۔ اس کا مقصد ان کے پاؤں کو ایک 'خوبصورت' شکل دینے کے علاوہ ان کی نقل و حرکت کو محدود کرنا بھی تھا۔

شروع میں یہ رسم صرف امیر گھرانوں تک محدود تھی پھر آہستہ آہستہ پورے چین میں پھیل گئی۔ فُٹ بائنڈنگ کے لیے 5 سے 8 برس کی عمر کی لڑکیوں کے پاؤں ایک لمبے کپڑے کی مدد سے باندھ دیے جاتے تھے۔ ایسا کرتے ہوئے دھیان رکھا جاتا کہ پاؤں کی انگلیاں نیچے کی طرف مُڑ جائیں۔ اس کا اثر یہ ہوتا کہ پاؤں کی قدرتی بڑھوتی رُک جاتی۔

10ویں صدی سے 20ویں صدی کے اوائل تک چین میں خواتین کی فُٹ بائنڈنگ یا پیروں کو باندھنے کا رواج بھی عام تھا
10ویں صدی سے 20ویں صدی کے اوائل تک چین میں خواتین کی فُٹ بائنڈنگ یا پیروں کو باندھنے کا رواج بھی عام تھا

1902ء میں چھنگ دور کی بادشاہت نے اس رسم کے خاتمے کا اعلان کیا تھا تاہم یہ رسم صحیح معنوں میں اس کے کئی دہائیوں بعد ختم ہوئی تھی۔

قدیم چین میں عورت کی تعلیم اور معاش پر بھی معاشرتی پابندیاں عائد تھیں۔ آج کے چین میں عورتیں اس حوالے سے مردوں کے شانہ بشانہ نظر آتی ہیں۔ لوگ بیٹے اور بیٹی میں کسی قسم کا فرق روا نہیں رکھتے۔ تعلیمی اداروں میں بھی صنفی بنیاد پر تعصب نظر نہیں آتا۔ پاکستان کی طرح یہاں بھی کبھی کبھار کسی یونیورسٹی کی طرف سے لڑکیوں کے لباس کے حوالے سے نوٹیفکیشن جاری ہوتا ہے، لیکن چینی اپنے ٹوئٹر یعنی ویبو پر اس کا کھل کر مذاق اڑاتے ہیں۔

1910ء سے 1920ء کے دوران چین میں مئی فورتھ کے نام سے نسائی تحریک چلائی گئی تھی۔ اس تحریک میں زیادہ تر مرد شامل تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس تحریک کی وجہ سے چین میں عورتوں کے حقوق پر سنجیدہ گفتگو کا آغاز ہوا۔

1949ء میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ نے عوامی جمہوریہ چین کا نظام سنبھالا تو اس نے خواتین کے حقوق کو بھی اپنی پالیسی کا حصہ بنایا۔ ناقدین کہتے ہیں کہ اس کے پیچھے پارٹی کا مقصد صنفی برابری یا خواتین کے حقوق سے زیادہ اپنے ایجنڈے کا حصول تھا۔ مقصد چاہے جو بھی ہو، حکومت کی ان پالیسیوں کی وجہ سے چین میں عورت کو وہ تمام حقوق حاصل ہوئے جو اس وقت بہت سے مغربی ممالک میں بھی عورتوں کو حاصل نہیں تھے۔

لکھاری چین میں اپنے دوستوں کے ہمراہ
لکھاری چین میں اپنے دوستوں کے ہمراہ

آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف ساؤتھ ویلز کی ایک پروفیسر لوئیس ایڈورڈز پچھلے 40 برس سے چینی تاریخ اور خواتین کی تحریک پر تحقیق کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’1950ء میں چین کے سرکاری اداروں میں کام کرنے والی خواتین کو زچگی کی چھٹیوں کے علاوہ بچے کو دودھ پلانے کے لیے بھی چھٹیاں لینے کا حق حاصل تھا‘۔ وہ کہتی ہیں کہ اس وقت آسٹریلیا میں ان حقوق کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔

چین نے 1949ء کے بعد بس آگے اور آگے کا ہی سفر کیا ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ یہاں خواتین کو مشکلات کا سامنا بالکل بھی نہیں۔ دیہاتوں کی بات کریں تو وہاں روایتیں ابھی بھی خواتین کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ ہماری ایک پروفیسر نے بتایا کہ وہ ایک دستاویزی فلم کے سلسلے میں ایک گاؤں گئیں، وہاں21 سے 25 برس کی عمر میں لڑکیوں کی شادی کرنے کا رواج تھا۔

لکھاری ایک چینی خاتون کے ہمراہ
لکھاری ایک چینی خاتون کے ہمراہ

وہاں ایک لڑکی ایسی بھی تھی جس نے جلد شادی کرنے کے بجائے اپنی تعلیم مکمل کرنے اور پھر نوکری کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت اس کی عمر 26 سال تھی۔ پروفیسر نے ہنستے ہوئے بتایا کہ وہ لڑکی اور اس کی شادی کا معاملہ گاؤں کے مکینوں کا پسندیدہ موضوع تھا۔ وہ جہاں اکٹھے ہوتے اس بارے میں ضرور بات کرتے تھے۔

دوسری طرف بڑے شہروں کی بات کریں تو وہاں ایسی کوئی بات سوچنا بھی مضحکہ خیز ہے۔ عورت جب چاہے جس سے چاہے شادی کرسکتی ہے اور کوئی اس حوالے سے اسے طعنے نہیں دے سکتا۔ چینی عورتیں ہر شعبے میں ہر سطح پر اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ہسپتالوں، بینکوں اور بڑے بڑے تھنک ٹینکس میں کام کرنے سے لے کر سڑکوں پر بس اور ٹیکسی بھی چلا رہی ہیں۔ سردیوں میں سڑکوں پر جمع برف بھی صاف کر رہی ہیں۔ یہاں کوئی یہ نہیں کہتا کہ آپ لیڈیز ہیں، یہ کام آپ کے کرنے کا نہیں ہے، چین میں اس خیال کو فرسودہ سوچ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

چینی عورتیں ہر شعبے میں ہر سطح پر اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں
چینی عورتیں ہر شعبے میں ہر سطح پر اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں

البتہ، چین کے سیاسی میدان پر آج بھی مردوں کی اجارہ داری ہے۔ 9 کروڑ 50 لاکھ اراکین پر مشتمل کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کی 7 رکنی اسٹینڈنگ کمیٹی میں ایک بھی عورت شامل نہیں ہے۔ اگرچہ پارٹی پالیسی کے مطابق صوبائی، شہری اور ضلعی سطح پر پارٹی کے اعلیٰ عہدوں میں خواتین کا 10 فیصد حصہ مختص کیا گیا ہے لیکن حقیقت میں اس سے بہت کم خواتین ان نشستوں پر موجود ہیں۔

آج کے چین میں خواتین کے حوالے سے کسی بھی قسم کا تعصب برداشت نہیں کیا جاتا۔ جون میں شنگھائی کی ایک آرٹ گیلری نے ایک مرد آرٹسٹ کا ویڈیو آرٹ نمائش کے لیے پیش کیا تھا جس میں انہوں نے اپنی یونیورسٹی کی 5 ہزار لڑکیوں کو اپنی پسند اور ناپسند کے مطابق خوبصورت سے بدصورت کے اسکیل پر نمبر دیے تھے۔ معاملہ ویبو پر اٹھا تو آرٹ گیلری نے فوراً اس نمائش کو منسوخ کیا اور عوام سے معافی مانگی۔

یہ عوام کی طاقت ہے۔ حکومت کی بھی خواتین کے حوالے سے ایک واضح پالیسی موجود ہے جس کا اثر عوام کے ذہنوں پر دیکھا جاسکتا ہے۔ چینی حکومت عورت کو برابر کا انسان تصور کرتی ہے اسی لیے عوام بھی اسے برابر کا ہی درجہ دیتے ہیں۔

ہماری حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ خواتین کے حوالے سے دو ٹوک پالیسی اپنائے۔ اگر وزیرِاعظم سمیت تمام وزرا خواتین کے بارے میں بات کرتے ہوئے اپنے نظریات کے بجائے حکومتی بیانیے کو فروغ دیں تو پاکستان میں بھی چین کی طرح عورت کا مقام بہتر اور مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں