بھارت: مسلم خواتین کی تصاویر کی 'جعلی نیلامی' کے نئے اسکینڈل کا انکشاف

اپ ڈیٹ 11 جولائ 2021
بھارت میں مسلمان خواتین کی تصاویر نیلامی کیلئے ویب سائٹ پر شائع کردی گئیں — فوٹو: اے ایف پی
بھارت میں مسلمان خواتین کی تصاویر نیلامی کیلئے ویب سائٹ پر شائع کردی گئیں — فوٹو: اے ایف پی

بھارت میں درجنوں مسلمان خواتین کو پولیس کو مطلع کیے بغیر آن لائن جھوٹی نیلامی میں فروخت کیلئے پیش کرنے کے واقعے کی پولیس نے تحقیقات شروع کردی ہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق رواں ہفتے میں 80 سے زائد خواتین کی تصاویر بھارتی ویب سائٹ پر 'سُلی ڈیل آف دی ڈے' کے عنوان سے شائع کی گئیں، اس میں لفظ 'سُلی' کو مسلمان خواتین کے لیے توہین آمیز قرار دیا جارہا ہے۔

اس حوالے سے ایئر لائن میں ملازمت کرنے والی پائلٹ حنا محسن خان کو ان کے دوست نے خبردار کیا اور اس لنک کے بارے میں آگاہ کیا جہاں خواتین کی تصاویر کی گیلری موجود ہے۔

حنا محسن خان نے اے ایف پی کو بتایا کہ گیلری میں چوتھی تصویر میری تھی جس کی وہ لوگ نیلامی کر رہے تھے اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ میں ایک دن کے لیے ان کی غلام ہوں۔

انہوں نے کہا کہ یہ دیکھ کر میرا جسم منجمد ہو گیا تھا اور اس دن سے آج تک میں مسلسل غصے میں ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: مسلمان بزرگ شہری کی زبردستی داڑھی کاٹنے والے ملزمان گرفتار

بھارتی ویب سائٹ 'گٹ حب' کا کہنا ہے کہ اس تمام عمل میں ملوث صارفین کے اکاؤنٹس معطل کر دیے گئے ہیں کیونکہ انہوں نے ہراساں، تعصب اور تشدد کے حوالے سے ویب سائٹ کی پالیسی کی خلاف ورزی کی ہے۔

دہلی پولیس نے واقعے میں ملوث نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے کیونکہ انہیں تاحال ملزمان کی شناخت کا علم نہیں ہے۔

34 سالہ ثانیہ احمد نے بھی گزشتہ ہفتے ویب سائٹ پر فروخت کےلیے آویزاں اپنی تصویر دیکھی تھی۔

رپورٹ کے مطابق واقعے میں ملوث افراد صحافیوں اور سماجی کارکنان سمیت دیگر لوگوں کا تعاقب کرنے میں ماہر ہیں، ہزاروں توہین آمیز پیغامات پھیل جانے کے بعد متعدد شہری اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بند کرچکے ہیں۔

بھارت کے 17 کروڑ مسلمانوں میں سے اکثر کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے اور قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اقتدار میں آنے کے بعد وہ خود کو دوسرے درجے کا شہری محسوس کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: بھارت: جنونی ہندوؤں کا مسلمان بزرگ پر تشدد، زبردستی سور کا گوشت کھلا دیا

بھارتی صحافی فاطمہ خان بھی نشانہ بننے والی خواتین کی فہرست میں شامل ہیں اور انہوں نے اس پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ آخر کیسے ممکن ہے؟ اس عمل میں ملوث افراد کو کیا سزا ملے گی، ایسے افراد کو سزا دینی چاہیے جنہوں نے یہ فہرست بنائی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مسلمان مردوں کو مارا جارہا ہے، مسلمان خواتین کو آن لائن فروخت اور ہراساں کیا جارہا ہے، یہ سب کب ختم ہوگا۔

لڑکیوں اور خواتین کو آن لائن ہراساں، تشدد کا نشانہ بنانا یا دھمکی آمیز پیغامات بھیجنا، بڑھتے ہوئے ریپ کے واقعات، فحش تصاویر بنانے پر مجبور کرنے جیسے مسائل ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے جارہے ہیں اور بھارتی حکومت ان واقعات کے تدارک میں عملی طور پر مکمل ناکام ہو چکی ہے، خواتین کو آن لائن ہراساں کیے جانے کا معاملہ صرف بھارت تک محدود نہیں ہے۔

2020 میں برطانیہ کے بین الاقوامی ادارے نے31 ممالک میں 14ہزار لڑکیوں سے سروے کیا جن میں سے نصف سے زائد کو آن لائن ہراساں کیے جانے اور دیگر ایسے واقعات کا سامنا کرنا پڑ چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لڑکیوں کو آزاد اور اپنی رائے کا اظہار کرنے کے لیے بااختیار بنانے کے بجائے انہیں ہراساں اور آن لائن سائٹس پر بدسلوکی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

34 سالہ ثانیہ احمد ایک بھارتی میڈیا کمپنی کے لیے کام کرتی ہیں اور انہوں نے کہا کہ بھارت میں مسلمان خواتین کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ معاملات چھوٹی بدسلوکی کے ساتھ شروع ہوتے ہیں اور موت، ریپ اور تشدد تک پہنچ جاتے ہیں۔

میرے پاس بدسلوکی کے 782 اسکرین شاٹس موجود ہیں، بیشتر ٹوئٹر کے ہیں جس میں مجھے نشانہ بنایا گیا ہے اور یہ صرف گزشتہ برس کے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ اس میں ملوث افراد اسلاموفوبیا کو ہوا دینے والی بھارتی ہندو قوم پرست حکومت کے حمایت یافتہ افراد ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت میں مسلمان سمیت تمام اقلیتیں غیر محفوظ ہیں، وزیر خارجہ

تازہ ترین اسکینڈل پر بھارتی حکومت کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا، جبکہ وہ اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے مخالف ہیں۔

ثانیہ احمد نے کہا کہ وہ ٹوئٹر پر شائع ہونے والی توہین آمیز پوسٹوں پر متعدد قانونی نوٹس بھجوا چکی ہیں لیکن کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی، ٹوئٹر نے معاملے پر بیان نہیں دیا۔

قومی ویمن کمیشن کے مطابق متاثرین میں ریسرچرز، تجزیہ کار، فنکار اور صحافی شامل ہیں۔

حنا محسن خان نے کہا کہ متاثرہ خواتین جنہیں نشانہ بنایا گیا وہ روایتی مسلمان خواتین ہونے کی سوچ پر پورا نہیں اترتیں، برقعہ نہیں پہنتیں، پردہ نہیں کرتیں، جب ہم ان کے خیالات پر پورا نہیں اترتے تو ہمیں خاموش کرنے کے لیے نشانہ بنایا جاتا ہے۔

ثانیہ احمد کا کہنا ہے کہ ہر روز فون دیکھنے سے پہلے میرا دل دھڑکتا ہے کہ یہ بدسلوکی مسلمان مردوں کی بھی توہیں ہے، جب آپ کسی پر حملہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ گھر کی خواتین پر حملہ کرتے ہیں کیونکہ وہ حساس ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں