چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کی اسکروٹنی نہیں ہوسکتی، بیرسٹر علی ظفر

اپ ڈیٹ 15 جولائ 2021
2 رکنی بینچ نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی دائر کردہ درخواست پر سماعت کی — آئی ایچ سی ویب سائٹ
2 رکنی بینچ نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی دائر کردہ درخواست پر سماعت کی — آئی ایچ سی ویب سائٹ

اسلام آباد: چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے وکیل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ چونکہ ایوانِ بالا کے سب سے اونچے عہدے کا انتخاب پارلیمانی کارروائی کا حصہ ہے اس لیے یہ عدالتی تحقیقات کے تابع نہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی دائر کردہ درخواست پر سماعت کی۔

رہنما پیپلز پارٹی نے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے دوران ان کے حق میں پڑنے والے 7 ووٹس کو مسترد کیے جانے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا جس کی سماعت میں سینیٹر علی ظفر نے دلائل دیے۔

یہ بھی پڑھیں: یوسف رضا گیلانی نے چیئرمین سینیٹ کا انتخاب عدالت میں چیلنج کردیا

یاد رہے کہ انتخاب کے بعد پریزائیڈنگ افسر نے یہ رولنگ دی تھی کہ صحیح طریقے سے مہر نہ لگانے کے سبب 7 ووٹس درست نہیں جس کے بعد صادق سنجرانی انتخاب میں کامیاب ہوگئے تھے۔

بیرسٹر علی ظفر کے مطابق پریزائیڈنگ افسر نے سینیٹ کے چیئرمین کی جگہ پر کارروائی کی۔

انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ آئین میں عدالت اور پارلیمنٹ کو ایک دوسرے کے دائرہ کار سے علیحدہ رکھا گیا ہے، جیسا کہ پارلیمنٹ عدلیہ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی نہ ہی عدالتی کارروائی پر سوال اٹھا سکتی ہے، اسی طرح عدالت بھی کسی طرح کسی بھی پارلیمانی امور میں مداخلت نہیں کر سکتی۔

انہوں نے کہا کہ درخواست گزار یوسف رضا گیلانی نے سینیٹ چیئرمین کا انتخاب عدالت میں چیلنج کر کے بذات خود سینیٹ کی اندرونی کارروائی سمجھے جانے والے اس استحقاق کی خلاف ورزی کی ہے، جبکہ آئین کے تحت عدلیہ کو پارلیمان کی کارروائی میں مداخلت سے روکا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: یوسف رضا گیلانی کی درخواست قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر عدالت نے سینیٹ پر کوئی نوٹس یا ہدایت جاری کرنے کا فیصلہ کیا تو یہ اقدام ریاستی ادارے کی آزادی، اختیارات الگ کرنے کی خلاف ورزی اور توہین کے مترادف ہوگا۔

بیرسٹر علی ظفر نے برطانوی قانون کے ساتھ ساتھ آئین کے تحت چلنے والی دنیا کی ان ریاستوں کا حوالہ دیا جہاں پارلیمان کا تصور موجود ہے۔

ان کا کہنا تھا ان تمام ریاستوں نے اپنے آئین میں لکھا ہوا ہے کہ پارلیمنٹ کا میکانزم ان کی اپنی کارروائی کو ریگولیٹ کرتا ہے اور عدلیہ، پارلیمنٹ کے کسی امور میں مداخلت کا دائرہ کار نہیں رکھتی۔

انہوں نے برطانوی عدالت کے جج کے فیصلے کا بھی حوالہ دیا جس نے کہا تھا کہ پارلیمان کی دیواروں کے اندر جو کچھ کہا جائے یا کیا جائے اس کی عدالت یا کہیں اور پوچھ گچھ نہیں کی جاسکتی، حتیٰ کہ اگر معاملہ کسی مقصد کی حمایت کا ہی ہو۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: چیئرمین سینیٹ انتخاب کے خلاف یوسف گیلانی کی درخواست مسترد

قبل ازیں یوسف رضا گیلانی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے نشاندہی کی کہ انتخاب، رولز آف پروسیجر اینڈ کنڈکٹ آف بزنس آف سینیٹ 2012 کے تحت ہوا جس میں بیلٹ پیپر پر نشان لگانے کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔

وکیل نے کہا کہ پریزائیڈنگ افسر نے جانبداری اور بدنیتی سے کام لیا کیوں کہ انہوں نے زبانی حکم دینے سے انکار کیا اور سینیٹ سیکریٹریٹ کی جاری کردہ رہنما ہدایات کا نوٹس لینے میں ناکام رہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں