'افغانستان کی موجودہ صورتحال کا الزام پاکستان پر دھرنا انتہائی ناانصافی ہے'

اپ ڈیٹ 10 اگست 2021
وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان میں گڑبڑ سے جو ملک سب سے زیادہ متاثر ہوگا وہ پاکستان ہے — تصویر: حکومت پاکستان ٹوئٹر
وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان میں گڑبڑ سے جو ملک سب سے زیادہ متاثر ہوگا وہ پاکستان ہے — تصویر: حکومت پاکستان ٹوئٹر

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کسی بھی ملک نے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان سے زیادہ کوششیں نہیں کیں، افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا الزام پاکستان پر دھرنا انتہائی ناانصافی ہے۔

ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں وسطی اور جنوبی ایشیا کے ممالک کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں وزیر اعظم عمران خان، ازبک صدر شوکت، افغان صدر اشرف غنی سمیت خطے کے ممالک کے اہم عہدیداران اور بین الاقوامی اداروں کے سربراہان نے شرکت کی۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے افغانستان کے صدر اشرف غنی کی جانب سے افغان تنازع میں پاکستان کے منفی کردار کی نشاندہی سے متعلق نقطہ نظر پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ 'میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ افغانستان میں گڑبڑ سے جو ملک سب سے زیادہ متاثر ہوگا وہ پاکستان ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: افغان حکومت طالبان سے مذاکرات کرے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے، روس

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے گزشتہ 15 برسوں میں 70 ہزار جانوں کا نقصان اٹھایا ہے، تنازع میں اضافہ وہ سب سے آخری چیز ہوگی جو پاکستان چاہے گا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ہماری معیشت بالآخر بحالی کی جانب گامزن ہے اور ہم سب سے مشکل ترین ادوار میں سے ایک سے گزرے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں دوبارہ دہراتا ہوں افغانستان میں گڑبڑ وہ آخری چیز ہوگی جو پاکستان چاہے گا، میں آپ کو اس بات کا یقین دلاتا ہوں کہ کسی ملک نے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان سے زیادہ کوششیں نہیں کیں۔

'امن میں دلچسپی نہ ہوتی تو کابل کیوں جاتا'

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں طالبان کے خلاف فوجی کارروائی میں کمی کے ساتھ ہم نے انہیں مذاکرات کی میز پر لانے کی ہر کوشش کی ہے تاکہ پرامن تصفیہ ہوسکے۔

عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا الزام پاکستان پر دھرنا انتہائی ناانصافی ہے، میں کابل گیا، اگر مجھے امن میں دلچسپی نہیں ہوتی تو میں کابل کیوں جاتا؟

مزید پڑھیں: وزیراعظم عمران خان کو دورہ ازبکستان پر شاندار گارڈ آف آنر پیش کیا گیا

ان کا کہنا تھا کہ تمام تر مقصد یہ تھا کہ ہم پاکستان کو امن میں شراکت دار دیکھیں، مجھے بہت مایوسی ہوئی کہ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا الزام پاکستان پر لگایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ 2 دہائیوں سے جاری تنازع، گہری تقسیم کی وجہ سے ہو رہا ہے اور بدقسمتی سے امریکا نے عسکری حل کی کوشش کی لیکن وہ نہیں جیتے۔

'جب طالبان کو فتح کا یقین ہے تو وہ ہماری بات کیوں سنیں گے'

وزیر اعظم عمران خان نے مزید کہا کہ جب افغانستان میں ہزاروں نیٹو فوجی، بہترین فوجی مشنز تھے، وہ وقت تھا کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر آنے کو کہا جاتا، طالبان اب کیوں سمجھوتہ کریں گے جب افواج کے انخلا کی حتمی تاریخ دی جاچکی ہے اور صرف چند ہزار امریکی فوجی باقی رہ گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب طالبان کو فتح کا یقین ہے تو وہ ہماری بات کیوں سنیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ میری ازبکستان کے صدر سے بھی اس حوالے سے طویل بات چیت ہوئی کہ ہم تمام پڑوسی ممالک مل کر کس طرح افغانستان میں امن اور سیاسی تصفیے میں مدد کریں کیوں کہ یہ ہم سب کے مفاد میں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں قیام امن ضروری ہے اور سیاسی تصفیے کی امید ہے، وزیراعظم

عمران خان نے دہرایا کہ پاکستان میں 30 لاکھ افغان پناہ گزین موجود ہیں اور ہم مزید پناہ گزینوں کی آمد کے خدشے سے خوفزدہ ہیں کیوں کہ ہمارے پاس گنجائش اور معاشی صلاحیت نہیں ہے کہ پناہ گزینوں کی ایک اور آمد برداشت کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ میں آپ کو ایک مرتبہ پھر یقین دلاتا ہوں کہ اگر دنیا کے تمام ممالک میں سے کوئی ایک ملک سب سے زیادہ کوششیں کر رہا ہے تو وہ پاکستان ہے۔

'پاکستان، بھارت کے تنازعات حل ہونے سے پورا خطہ تبدیل ہوجائے گا'

کانفرنس میں تقریر کا آغاز کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ حل طلب تنازعات کی وجہ سے خطہ ٹکڑوں میں بٹا رہا ہے اور دہائیوں تک متحد نہ ہوسکا۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان وسطی اور جنوبی ایشیا کے درمیان قدرتی زمینی پُل ہے اور یہاں امن کا قیام خطے کے درمیان روابط کو خواب سے حقیقت میں بدلنے کے لیے انتہائی اہم ہے۔

ان کا مزید کہنا کہ افغانستان میں استحکام ہماری سب سے بڑی ترجیح ہے کیوں کہ یہ براہ راست ہمیں متاثر کرتی ہے، پاکستان امن و تصفیے کے لیے تعمیر نو اور معاشی ترقی سمیت تمام منصوبوں کی حمایت کرتا رہے گا۔

مزید پڑھیں: پاکستان اور ازبکستان کا دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے پر اتفاق

وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ روابط کے اس منصوبے میں دوسرا سب سے بڑا چیلنج پاکستان اور بھارت کے درمیان علاقائی غیر حل شدہ تنازعات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان اور بھارت مسئلہ کشمیر کو حل کر لیں تو پورا خطہ تبدیل ہوجائے گا، ایک جانب بھارت کی بڑی منڈی ہوگی، دوسری جانب چین اور ایک جانب پاکستان ہوگا لیکن بدقسمتی سے تنازعات کی وجہ سے صلاحتیوں سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک کے علاوہ علاقائی اور بین الاقوامی اسٹیک ہولڈرز کی مذاکراتی تصفیے میں سہولت فراہم کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کے مابین وفود کی سطح پر بات چیت شروع

دوسری جانب پاکستان اور افغانستان کے درمیان وفود کی سطح پر بات چیت کا آغاز ہوگیا ہے۔

جمعہ کو وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق بات چیت میں پاکستان کے وفد کی قیادت وزیر اعظم عمران خان جبکہ افغانستان کے وفد کی قیادت افغان صدر اشرف غنی کررہے ہیں۔

یہ بات چیت تاشقند میں وسطی و جنوبی ایشیا 2021، علاقائی روابط، چیلنجز اور مواقع' کے انعقاد کے موقع پر ہو رہی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں