ٹرانسپورٹ کے شعبے کا حکومتی اداروں کی رکاوٹوں سے متعلق وزیر اعظم سے شکوہ

اپ ڈیٹ 19 جولائ 2021
سی این جی سیکٹر کو دوسرے تمام صارفین کے مقابلے میں گیس کی سب سے زیادہ قیمت ادا کرنا پڑتی ہے، یو جی ڈی سی - فائل فوٹو:رائٹرز
سی این جی سیکٹر کو دوسرے تمام صارفین کے مقابلے میں گیس کی سب سے زیادہ قیمت ادا کرنا پڑتی ہے، یو جی ڈی سی - فائل فوٹو:رائٹرز

اسلام آباد: کمپریسڈ نیچرل گیس (سی این جی) پر انحصار کرنے والے ٹرانسپورٹ کے شعبے نے وزیر اعظم سے شکوہ کیا ہے کہ مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی قیمتوں کا تعین، فراہمی، درآمد اور نقل و حمل کے لیے پائپ لائن کی صلاحیت کے معاملات میں مختلف سرکاری اداروں کی جانب سے نارروا سلوک اور رکاوٹوں کا سامنا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک تفصیلی پریزنٹیشن، جس کی کاپیاں وزارت توانائی اور آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) اور یونیورسل گیس ڈسٹری بیوشن کمپنی (یو جی ڈی سی) کے ساتھ شیئر کی گئی ہیں، میں 2014 کے بعد 'گیس کی فراہمی میں نجی شعبے کے کردار کے خلاف رکاوٹوں' کی وضاحت کی گئی ہے۔

مختصر طور پر سی این جی سیکٹر کو دوسرے تمام صارفین کے مقابلے میں مقامی گیس یا درآمد شدہ ایل این جی کی سب سے زیادہ قیمت ادا کرنا پڑتی ہے اور سپلائی میں کمی پر سب سے پہلے اسے شٹ ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پھر بھی اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسے اپنی درآمدات کا بندوبست کرنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ خدشہ ہے کہ سستی درآمد سے عوامی شعبے کی اجارہ داری ختم ہوسکتی ہے۔

یو جی ڈی سی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر غیاث عبداللہ پراچہ نے کہا کہ 4 ارب کیوبک فٹ (بی سی ایب) کی سالانہ فراہمی کے مقابلے میں گیس کا شارٹ فال 2 بی سی ایف تک بڑھا تو سی این جی سیکٹر کے ساتھ ساتھ کئی دیگر گیس پر مبنی صنعتیں بھی شدید متاثر ہوئیں اور انہیں بقا کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

مزید پڑھیں: گیس بحران میں شدت: سی این جی اسٹیشنز، صنعتوں کو گیس کی فراہمی معطل

گیس کی کمی کو کم کرنے کے لیے نجی شعبے کو فروغ دینے کے حکومتی فیصلے کے ساتھ سی این جی سیکٹر کے متعدد نمائندوں نے 2014 میں یو جی ڈی سی قائم کی۔

انہوں نے کہا کہ ’جب سے یہ قائم ہوئی ہے یو جی ڈی سی نے سخت تجارتی مشکلات کا سامنا کیا ہے اور تمام تجارتی انتظامات کو محفوظ بنانے کے لیے ان گنت اقدامات کیے تاکہ سی این جی اسٹیشنز اور دیگر گیس صارفین کو ایل این جی کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے‘۔

انہوں نے بتایا کہ جب یو جی ڈی سی ایل این جی ٹرمینلز کی سرپلس صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لیے کامیاب بولی لگائی تو سرکاری شعبے کے اداروں نے نیلامی کا اختتام نہیں کیا، ’یو جی ڈی سی نے پائپ لائن کی گنجائش کو مختص کرنے کے لیے ہر ممکن حد تک کوششیں کیں لیکن کوئی بھی درخواست کو منظور اور مفاہمتی یادداشت پر دستخط نہیں کیا گیا۔

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان ایل این جی لمیٹڈ کے غیر استعمال شدہ کنٹریکٹ ٹرمینل کی صلاحیت کی وجہ سے گزشتہ تین سالوں میں گیس صارفین پر تقریبا 10 کروڑ ڈالر (تقریبا 16 ارب روپے) کا بوجھ ڈالا گیا۔

اس کے علاوہ گیس کی عدم دستیابی، ایل این جی ٹرمینلز کی دوبارہ بحالی کے چارجز، گیس کمپنیوں کو ٹرانسپورٹ چارجز اور ٹیکس کے نقصانات کی شکل میں حکومت کے 80 ارب روپے کی درآمدی بچت ضائع ہوگئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گیس کے شعبے میں گردشی قرضہ 532 ارب روپے تک پہنچ گیا

یو جی ڈی سی نے بتایا کہ ’اس کے پیداواری استعمال کے برعکس گیس سپلائی چین میں نجی شعبے کے کردار میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے‘۔

غیاث عبداللہ پراچہ نے کہا کہ ان اقدامات اور نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ ’یو جی ڈی سی کو جان بوجھ کر اس کے جائز تجارت اور کاروبار کے حق کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے جو اوگرا گیس (تھرڈ پارٹی رسائی) رولز 2018 کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ قانونی ڈھانچے میں یو جی ڈی سی کے ٹرمینل اور پائپ لائن کی گنجائش مختص کرنے کا حق اچھی طرح سے محفوظ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’عملی طور پر بھی یو جی ڈی سی کے حق کا احترام کرنا مناسب اور معقول ہوگا، مندرجہ بالا قانونی فریم ورک سے انحراف میں موجودہ یا مستقبل کے گیس انفرا اسٹرکچر پر کسی ادارے کو پائپ لائن اور ٹرمینل کی گنجائش مختص کرنے سے نہ صرف یو جی ڈی سی کے حقوق کی خلاف ورزی ہوگی بلکہ قانون کی خلاف ورزی بھی ہوگی'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں