فیٹف پر سیاست کیلئے بھارت کا اعتراف پاکستان کے مؤقف کو درست ثابت کرتا ہے، دفتر خارجہ

اپ ڈیٹ 19 جولائ 2021
بھارت کے وزیر خارجہ کے بیان نے بھارت کے حقیقی رنگ اور گمراہ کن کردار کو بے نقاب کردیا ہے، دفتر خارجہ - فائل فوٹو:رائٹرز:ڈان نیوز
بھارت کے وزیر خارجہ کے بیان نے بھارت کے حقیقی رنگ اور گمراہ کن کردار کو بے نقاب کردیا ہے، دفتر خارجہ - فائل فوٹو:رائٹرز:ڈان نیوز

دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ کے بیان نے عالمی مالیاتی نگراں ادارے میں ’بھارت کے منفی کردار‘ کے بارے میں پاکستان کے دیرینہ مؤقف کی توثیق کردی ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ پر برقرار رکھنے کو یقینی بنانے کے لیے بھرپور کوشش کی ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ کے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے وزیر خارجہ کے بیان نے بھارت کے ’حقیقی رنگ‘ اور ’گمراہ کن‘ کردار کو بے نقاب کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان ہمیشہ عالمی برادری کو بھارت کے ایف اے ٹی ایف میں سیاست کرنے اور اس کی کارروائی میں رکاوٹیں ڈالنے کے بارے میں بات کرتا رہا ہے، حالیہ بھارتی بیان پاکستان کے خلاف ایک اہم تکنیکی فورم کو استعمال کرنے کے لیے جاری کوششوں کی حمایت کرتا ہے‘۔

ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’جہاں ایکشن پلان پر عمل درآمد کے دوران پاکستان ایف اے ٹی ایف کے ساتھ مخلصانہ اور تعمیری طور پر مشغول رہا ہے وہیں بھارت نے مذموم اقدامات سے پاکستان کی پیش رفت پر شکوک و شبہات پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے‘۔

مزید پڑھیں: پاکستان بدستور ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں موجود

اس میں کہا گیا کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف اور بین الاقوامی برادری کے نوٹس میں حالیہ ’اعتراف‘ لا کر عالمی برادری کے سامنے بھارت کے کردار کو اجاگر کرتا رہے گا۔

مذکورہ بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستان اس معاملے میں ’مناسب کارروائی‘ کے لیے مالیاتی نگران ادارے سے رجوع کرنے پر بھی غور کر رہا ہے۔

بیان میں ’بھارتی حکومت کے حالیہ اعتراف کے بعد بھارت کے مشترکہ گروپ کی شریک صدر کے طور پر ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کا جائزہ لینے پر سوالات کھڑے کردیے ہیں جس پر ہم ایف اے ٹی ایف کو غور کرنے کی درخواست کرتے ہیں‘۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ انسداد منی لانڈرنگ/دہشت گردی کی مالی اعانت (اے ایم ایل / سی ایف ٹی) کا مقابلہ کرنے میں ’پاکستان کی پیش رفت‘ کا اعتراف ایف اے ٹی ایف نے کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کے تعاون سے اس رفتار کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہیں، بھارت کا پاکستان پر دباؤ ڈالنے کا خیال ہمیشہ ہی ادھورا رہا ہے‘۔

ترجمان دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ ’اختیارات کے ذریعے ایف اے ٹی ایف کے عمل کو سیاسی بنانے سمیت خلفشار کے باوجود پاکستان اپنے لیے بین الاقوامی معیار پر اپنے اے ایم ایل/سی ایف ٹی کے نظام کو لانے اور اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں اور وعدوں کو پورا کرنے کے اپنے عہد کی توثیق کرتا ہے‘۔

مودی حکومت نے پاکستان کے گرے لسٹ میں رہنے کو ’یقینی بنایا‘، ایس جے شنکر

بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ایک روز قبل بھارت کے وزیر برائے امور خارجہ ایس جے شنکر نے کہا تھا کہ نریندر مودی کی سربراہی میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ پاکستان فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی 'گرے لسٹ' میں شامل رہے۔

ایس جے شنکر نے بی جے پی رہنماؤں کے لیے خارجہ پالیسی سے متعلق ورچوئل ٹریننگ پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہماری وجہ سے پاکستان ایف اے ٹی ایف کی نظروں میں ہے اور اسے گرے لسٹ میں رکھا گیا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: ایف اے ٹی ایف کی ’سفارشات‘ پر پاکستان کی درجہ بندی میں بہتری

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’ہم پاکستان پر دباؤ ڈالنے میں کامیاب رہے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے طرز عمل میں تبدیلی آئی ہے جس کی وجہ بھارت کی جانب سے مختلف اقدامات کے ذریعے دباؤ ڈالنا ہے‘۔

رپورٹ کے مطابق بھارتی وزیر نے اجلاس کے دوران لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسی کالعدم تنظیموں پر پابندیوں کا بھی ’اقوام متحدہ کے توسط سے‘ بھارتی حکومت کی کوششوں کا سہرا لیا۔

پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں بدستور موجود

واضح رہے کہ پاکستان جون 2018 سے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں موجود ہے۔

حال ہی میں 25 جون کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان کا نام بدستور گرے لسٹ میں رہے گا تاہم ملک نے 27 میں سے 26 نکات پر بہتری دکھائی ہے۔

ایف اے ٹی ایف کے صدر مارکوس پلیئر نے اجلاس کے بعد لائیو پریس کانفرنس میں کہا کہ اجلاس میں کئی معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان بدستور نگرانی میں رہے گا، پاکستانی حکومت نے انسداد دہشت گردی فنانسگ نظام کو مضبوط اور مؤثر بنانے کے لیے بہتر کام کیا ہے۔

صدر ایف اے ٹی ایف نے کہا کہ پاکستان نے 27 میں سے 26 نکات پر کام کیا ہے تاہم ایک پوائنٹ پر کام کرنا ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فنانشل ٹیرارزم کے منصوبے پر کارروائی کی ضرورت ہے، جس میں اقوام متحدہ کی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل رہنماؤں اور کمانڈرز کے خلاف تفتیش اور سزائیں دلانا شامل ہے۔

مزید پڑھیں: ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے اہم پیشرفت ہوئی ہے، دفتر خارجہ

ان کا کہنا تھا کہ 2019 میں ایف اے ٹی ایف کے ریجنل پارٹنر اے پی جی اے نے پاکستان کے انسداد منی لانڈرنگ اور انسداد دہشت گردی فنانسگ سسٹم کے حوالے سے اقدامات کی نشان دہی کی تھی لیکن اس کے بعد بہتری آئی ہے اور کیسز بنانے کے لیے فنانشل انٹیلی جنس کا استعمال کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان تاحال کئی شعبوں میں ایف اے ٹی ایف کے عالمی سطح کے معیارات پر مؤثر عمل درآمد میں ناکام رہا ہے، اس کا مطلب ہے کہ منی لانڈرنگ کے خدشات اب بھی بہت زیادہ ہیں، جو کرپشن اور منظم جرائم کے خطرات ہیں، اسی لیے ایف اے ٹی ایف پاکستانی حکومت کے ساتھ ان شعبوں میں کام کررہا ہے جہاں بہتری کی ضرورت ہے۔

صدر ایف اے ٹی ایف نے کہا کہ میں پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ اس عمل میں وہ پرعزم ہیں، پاکستان نے اے پی جی کی جانب سے نشان دہی کے بعد واضح بہتری دکھائی ہے اور حکام ضروری تبدیلیوں پر کام کر رہے ہیں اور نیا ایکشن پلان دیا گیا ہے۔

مارکوس پلیئر نے کہا کہ آخری نکتے پر اولین ایکشن پلان کے مطابق کام ہوا تھا لیکن نام فہرست سے نہیں نکالا گیا کیونکہ اس کے برابر ایک اور ایکشن پلان بھی دیا گیا تھا۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان جانتا ہے کہ اس سے کیا توقعات ہیں اور وہ ان اہداف کو پورا کرے گا، ہم ان کے ساتھ تعاون کریں گے اور نگرانی کریں گے، 4 ماہ بعد دوبارہ جائزہ لیں گے۔

یاد رہے کہ پاکستان نے فروری 2021 میں اپنی تیسری پیش رفت رپورٹ ایف اے ٹی ایف میں پیش کی تھی جس کا جائزہ لیا گیا تھا اور پاکستان کو بدستور گرے لسٹ میں رکھا گیا تھا۔

واضح رہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں منی لانڈرنگ سے متعلق ایشیا پیسیفک گروپ (اے پی جی) نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی اعانت کے خلاف ایف اے ٹی ایف کی 40 تکنیکی سفارشات میں سے 21 میں پاکستان کی درجہ بندی بہتر ظاہر کردی تھی۔

قبل ازیں گزشتہ سال اکتوبر میں ہونے والے اجلاس میں واچ ڈاگ نے فروری 2021 میں جائزے تک پاکستان کو ’بہتر نگرانی کے دائرہ اختیار‘ کی فہرست میں شامل رکھنے کا فیصلہ کیا تھا جب سفارشات کے ساتھ اس کی تعمیل کی حیثیت کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا'۔

آخری جائزے میں کہا گیا تھا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی فہرست میں موجود دہشت گرد گروہوں سے وابستہ تنظیموں کے خلاف مناسب کارروائی نہیں کی تھی۔

اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ پاکستان نے منشیات اور قیمتی پتھروں کی اسمگلنگ کے ذریعے دہشت گردی کی مالی اعانت سے نمٹنے کے لیے بہت کم کام کیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں