افغانستان: عالمی طاقتوں کا طالبان سے عید پر جارحانہ کارروائیاں روکنے کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 19 جولائ 2021
15ممالک کے سفارتی مشن اور نیٹو نے طالبان سے عید پر پرتشدد کارروائیاں روکنے کی اپیل کی ہے— فوٹو: اے ایف پی
15ممالک کے سفارتی مشن اور نیٹو نے طالبان سے عید پر پرتشدد کارروائیاں روکنے کی اپیل کی ہے— فوٹو: اے ایف پی

طالبان اور افغان حکومت کے نمائندوں کے مابین مذاکرات میں ناکامی کے بعد 15 ممالک کے سفارتی مشن اور افغانستان میں نیٹو کے نمائندے نے عیدالاضحیٰ پر طالبان سے جارحانہ کارروائیاں روکنے کا مطالبہ کردیا۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق گزشتہ ہفتے کے اختتام پر طالبان کی سیاسی قیادت اور افغان حکومت کے وفد کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن مذاکرات ہوئے لیکن اس اجلاس کے بعد جاری بیان میں افغانستان میں بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات کو روکنے کا کوئی عندیہ نہیں دیا گیا جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ پھر مذاکراتی عمل آگے نہیں بڑھ سکا۔

مزید پڑھیں: افغان تنازع کا بھرپور سیاسی تصفیہ چاہتے ہیں، طالبان سربراہ

تشدد کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں اور خراب صورتحال کے پیش نظر 15 ممالک کے سفارتی مشن اور نیٹو کے نمائندوں نے طالبان سے عیدالاضحیٰ کے موقع پر جارحانہ کارروائیاں روکنے کی اپیل کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس عیدالاضحیٰ پر طالبان ایک اچھے مقصد کے لیے ہتھیار ڈال دیں اور دنیا پر قیام امن کے لیے اپنی سنجیدگی کو ثابت کریں۔

اس بیان کی آسٹریلیا، کینیڈا، جمہوریہ چیک، ڈنمارک، یورپی یونین کے وفد، فن لینڈ، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، کوریا، نیدرلینڈز، اسپین، سوئیڈن، برطانیہ، امریکا اور نیٹو کے سینئر سویلین نمائندوں کی حمایت کی ہے۔

عید الفطر کی چھٹیوں پر طالبان نے مختصر مدت کے سیز فائر کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں افغانستان کے عوام امن سے رہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسپن بولدک کا کنٹرول واپس لینے کیلئے افغان فورسز کی طالبان سے لڑائی

تاہم عیدالاضحیٰ کے موقع پر ابھی تک ایسا کوئی بھی بیان جاری نہیں کیا گیا جہاں امریکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان ہر گزرتے دن کے ساتھ پیش قدمی کرتے ہوئے افغانستان کے ایک کے بعد ایک علاقے پر قبضہ کرتے جا رہے ہیں۔

پیر کو عالمی طاقتوں کی جانب سے جاری بیان میں طالبان کے زیر قبضہ علاقوں میں میڈیا اور اسکولوں کی بندش جیسی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی گئی۔

ادھر پیر کو طالبان نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے حکومتی فورسز سے شدید جھڑپوں کے بعد کابل کے جنوب مغرب میں واقع صوبہ ارزگان کے ضلع دہراؤد پر قبضہ کر لیا اور صوبائی انتظامیہ نے طالبان کی پیش قدمی کی تصدیق بھی کردی۔

شمالی صوبے سمنگن میں سیکیورٹی فورسز ضلع درہ سوف سے طالبان کو پیچھے ہٹانے میں کامیاب ہو گئیں اور اس دوران جھڑپوں میں ضلع کے قائم مقام گورنر اور دو کمانڈرز کے ساتھ ساتھ 24 طالبان جنگجو بھی مارے گئے۔

مزید پڑھیں: طالبان کی قیدیوں کی رہائی کے بدلے تین ماہ جنگ بندی کی پیش کش

دوسری جانب صدر اشرف غنی نے صوبہ ہیرات کے دارالحکومت کا دورہ کیا جہاں سوائے دارالحکومت کے طالبان صوبے کے تمام 17 اضلاع پر قبضہ کر چکے ہیں۔

طالبان سے مذاکرات میں شریک امن کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ نے پیر کو بتایا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں سیاسی رہنماؤں نے تنازع کے سیاسی حل پر گفتگو کی۔

اتوار کو طالبان نے بیان میں کہا تھا کہ افغانستان میں موجودہ مسئلے کے مستقل اور پائیدار حل کے لیے دونوں فریقین نے امن مذاکرات تیز تر کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

امن مذاکرات کا آغاز گزشتہ سال ستمبر میں ہوا تھا لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا، وسط ایشیائی ریاستوں کا افغانستان میں قبضے کی اجازت نہ دینے کا عزم

دوحہ میں طالبان کے ترجمان محمد وسیم نے ان افواہوں کی تردید کی ہے کہ طالبان نے قیدیوں کی رہائی کے بدلے عید پر سیز فائر پر اتفاق کیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں