نور مقدم قتل کیس: ملزم گرفتاری کے وقت مکمل ہوش و حواس میں تھا، پولیس

اپ ڈیٹ 22 جولائ 2021
ایس ایس پی انوسٹی گیشنز اسلام آباد نے قتل کیس کی ابتدائی تفتیش سے میڈیا کو آگاہ کیا—فوٹو: ڈان نیوز
ایس ایس پی انوسٹی گیشنز اسلام آباد نے قتل کیس کی ابتدائی تفتیش سے میڈیا کو آگاہ کیا—فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد پولیس نے وفاقی دارالحکومت میں پاکستان کے سابق سفارت کار کی بیٹی کے قتل کی تفتیش کے حوالے سے واضح کرتے ہوئے کہا کہ ملزم گرفتاری کے وقت مکمل ہوش و حواس میں تھا جبکہ ان کے قبضے سے آلہ قتل کے ساتھ ایک پستول بھی برآمد ہوا۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد میں سابق پاکستانی سفارتکار کی بیٹی قتل

ایس ایس پی انوسٹی گیشن اسلام آباد عطاالرحمٰن نے سابق سفارت کار کی بیٹی کے قتل کی ابتدائی تفتیش سے میڈیا کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ نور مقدم کی ظاہر کے ہاتھوں قتل کی اطلاع ملتے ہی پولیس موقع پر پہنچ گئی اور ملزم کو کو گرفتار کرلیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جائے وقوع کو گھیرے میں لے کر ہماری نیشنل فارنزک سائنس ایجنسی نے وہاں سے فرانزک شواہد جمع کیا اور پوری کوشش کی ہے کہ کوئی معمولی شواہد بھی ضائع نہ ہوں تاکہ کسی کو بھی فائدہ نہ مل سکے۔

انہوں نے کہا کہ ملزم ہماری حراست میں ہے جبکہ آئی جی اسلام آباد نے متاثرہ خاندان سے ملاقات کی اور جائے وقوع کا بھی دورہ کیا، تمام افسران اس کیس میں لگے ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی جی اسلام آباد نے خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی، جس کی سربراہی ایس ایس پی انوسٹی گیشنز، ایس پی سٹی، اے ایس پی کوہسار شامل ہے۔

ایس ایس پی انوسٹی گیشنز عطاالرحمٰن نے کہا کہ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے کنفیوژن ہے لیکن میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ملزم ہماری حراست میں ریمانڈ پر ہے اور ان کو موقع سے گرفتار کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم متاثرہ خاندان کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کو انصاف دلانا ہمارا فرض اور ذمہ داری ہے، ملزم سے اس وقت تفتیش ہو رہی ہے۔

صحافی کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ہماری ابتدائی تفتیش کے مطابق نور مقدم دو دنوں سے گھر میں نہیں تھی لیکن جس رات کو وقوعہ ہوا ہے، اس حوالے سے ملازمین سے بھی تفتیش کر رہے ہیں کہ وہ کتنے دنوں سے یہاں موجود تھی۔

ایس ایس پی انوسٹی گیشنز نے کہا کہ 20 جولائی کی رات کو واقعہ ہوا اور ہمیں یہاں کے کسی رہائشی سے فون کرکے اطلاع دی، تھانے سے بمشکل 10 منٹ کا فاصلہ ہے تو جلد ہی پہنچی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس واقعہ کا کوئی عینی شاہد نہیں ہے، اس لیے مذکورہ گھر کے ملازمین سے تفتیش کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سابق پاکستانی سفیر کی بیٹی کے قتل کا مقدمہ مشتبہ شخص کے خلاف درج

ملزم کے نشے کی حالت میں گرفتاری سےمتعلق سوال پر پولیس افسر نے بتایا کہ ملزم کے نشے سے متعلق تفتیش ہمارا کام نہیں ہے لیکن جب ان کو گرفتار کیا گیا تو وہ اس وقت مکمل ہوش و حواس میں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ شاید ملزم کا نشے کا ریکارڈ ہوگی لیکن اس وقت مکمل ہوش میں تھا اور اس وقت ملزم نے دوسروں پر بھی حملہ کیا جس پر انہوں نے باندھا اور پولیس بھی فوری موقعے پر پہنچ گئی، جب واقعہ ہوا تو وہ مکمل ہوش و حواس میں تھا۔

ایس ایس پی انوسٹی گیشنز عطاالرحمٰن کا کہنا تھا کہ اس کے گھر سے پستول بھی برآمد ہوا ہے لیکن ہماری تفتیش اور میڈیکل رپورٹ کے مطابق بھی گولی نہیں چلی اور اس حوالے سے کوئی زخم بھی نہیں ہے لیکن ان کے پاس پستول تھا اور برآمد بھی ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پستول جب برآمد ہوا تو گولی اس میں پھنس گئی تھی، نشے اور بحالی کے حوالے سے ہم پوچھ رہے ہیں لیکن ہماری زیادہ توجہ اس طرف نہیں ہے لیکن تفتیش کے حوالے سے اس نے بڑی زیادتی کی ہے اور وہ ہوش میں تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے واقعہ کے وقت ان کی ذہنی کیفیت پر توجہ مرکوز رکھی اور اس کے مطابق وہ مکمل ہوش و حواس میں تھا لیکن اگر نشے کا کوئی ریکارڈ ہے تو وہ تفتیش کا ڈومین نہیں ہے۔

صحافیوں کے سوالوں پر ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں ان کے کریمنل ریکارڈ کے حوالے سے ہمارے پاس کوئی ریکارڈ نہیں ہے، اگر ملک کے اندر کوئی ایف آئی آر ہو تو ریکارڈ ہمارے پاس آجاتا ہے لیکن ہم تفتیش میں کسی دوسرے ملک میں جرائم میں ملوث رہنے کے حوالے سے پوچھ سکتےہیں۔

ایس ایس پی انوسٹی گیشنز نے کہا کہ ہمارے پاس تفتیش دو نکات پر چل رہی ہے، ایک ملزم اور دوسرے گھر کے ملازمین سے تفتیش ہو رہی ہے اور اس میں ان کے جھگڑے کا ذکر ہے۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اب یہ بات کہ اس وقت کیا ہوا اور کس وجہ سے انہوں نے قتل کیا تو یہ تھوڑا سا وضاحت طلب ہے لیکن میں پھر یہی کہوں گا کہ چاہے جتنی بھی بڑی وجہ ہو کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ دوسرے کو اس طرح وحشیانہ طریقے سے قتل کرے۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ قتل جس کمرے میں ہوا وہ گھر کے اوپر والے حصے میں تھا اور ملازمین کو شور کی آواز آئی لیکن یہ تعین کرنا ہے کہ آیا ان کو معلوم تھا کہ اس کا اختتام قتل پر ہوگا یا نہیں، اگر انہیں معلوم تھا کہ اس کا نتیجہ قتل ہے تو پھر وہ بھی غفلت کے ارتکاب میں آتے ہیں لیکن اگر انہیں انجام کا معلوم نہ ہو تو پھر اس کو اسی حد تک ذمہ دار ٹھہرائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ایک قتل ہوا ہے، ملزم موقع سے گرفتار ہوا ہے اور اس برآمدگی ہوئی ہے، اس لیے ان کو کوئی فائدہ حاصل ہوگا، اگر یہاں تک کہ وہ انکار بھی کرے کیونکہ اس طرح ملزم کبھی اعتراف نہیں کرتا اور پولیس کے سامنے اعتراف کی بھی محدود قانونی حیثیت ہوتی ہے۔

پولیس افسر نے بتایا کہ ہمیں اپنی تفتیش کا پورا اختیار حاصل ہے، ہمارے رپورٹ ٹھوس شواہد کی بنیاد پر ہوگی چاہے اور اپنا بیان دے یا نہ دے، ہم اس کو پوری سزا دلوا کر رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کی تفتیش میں ملزم کے ذہنی مریض ہونے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، ہماری توجہ اس واقعے پر ہے، جس وقت وہ ذہنی طور پر ٹھیک تھا۔

ایس ایس پی انوسٹی گیشنز نے بتایا کہ آلہ قتل برآمد ہوا ہے جو آری نہیں تھی، چاقو تھا اور پستول بھی برآمد ہوا لیکن ہماری ابتدائی تفتیش کے مطابق پستول استعمال نہیں ہوا ہے۔

یاد رہے کہ 20 جولائی کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون،فور میں ایک گھر میں سابق پاکستانی سفارت کار کی بیٹی کو قتل کردیا گیا تھا۔

مقتولہ کی شناخت نور مقدم کے نام سے ہوئی تھی جو سابق سفارت کار شوکت مقدم کی بیٹی تھیں اور ان کی عمر 27 برس تھی۔

پولیس نے ابتدائی طور پر بتایا تھا کہ لڑکی پر فائرنگ کے بعد تیز دھار آلے سے بھی وار کیا گیا جبکہ واقعے میں ایک اور شخص زخمی ہوا اور واقعے میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر لڑکی کے ایک دوست ظاہر ذاکر کو گرفتار کر لیا گیا ہے جو ملک کے معروف تاجر کا بیٹا ہے۔

بعدازاں پولیس نے ان کےخلاف مقتولہ کے والد کی شکایت پر ظاہر کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی۔

خاتون کے بہیمانہ قتل نے وفاقی دارالحکومت میں خواتین کی حفاظت کے حوالے سے نئی بحث کو جنم دیا ہے اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر 'جسسٹس فار نور' کے ہیش ٹیگ سے ہزاروں ٹوئٹس کی گئیں۔

اطلاعات کے مطابق یہ گزشتہ چند دنوں کے دوران ملک میں کسی خاتون پر تیسرا سفاکانہ حملہ ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں