لکھاری آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، پاکستان میں سینیئر منیجر پروفیشنل ڈیولپمنٹ ہیں۔
لکھاری آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، پاکستان میں سینیئر منیجر پروفیشنل ڈیولپمنٹ ہیں۔

پرانی کہاوت ہے کہ ایک بچے کی پرورش کا ذمہ دار پورا گاؤں ہوتا ہے۔ اگرچہ گزرے زمانے کے لحاظ سے یہ کہاوت درست ہوگی تاہم وبا کے اس دور میں تو صورتحال اس کے برعکس نظر آتی ہے۔ گھر کے افراد ایک دوسرے کو اس وبا سے محفوظ رکھنے کے لیے فاصلہ اختیار کیے ہوئے ہیں اور اس وجہ سے خاندان بھی مزید تقسیم کا شکار ہوگئے ہیں۔

کئی گھروں میں توجہ کا مرکز بچوں کی دیکھ بھال سے بدل کر بیمار والدین کی خدمت ہوگیا ہے، خاص طور سے وہ جو متعدد بیماریوں کا شکار ہیں۔ چاہے کوئی بھی خاندانی نظام ہو اب کروڑوں افراد کی جانب سے صحت پر سب سے زیادہ توجہ دی جارہی ہے۔ اس وقت ہم تعلیم پر جتنی بھی توجہ دے لیں لیکن بچوں کا جو تعلیمی نقصان ہوچکا ہے وہ آنے والے وقت میں اپنا اثر دکھا سکتا ہے۔

اسکول کس طرح تعلیم کا تسلسل جاری رکھتے ہیں اس کا دار و مدار صرف ان اداروں پر ہے، جنہوں نے ڈیجیٹل تبدیلی کے عمل کے ذریعے اپنے اساتذہ کو اس کا اہل بنایا ہے۔

باشعور اور تجربہ کار استاد اب تعلیمی عمل میں کلیدی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ ان کی جگہ ایسے اساتذہ نے لے لی ہے جو ٹیکنالوجی کی بڑھتی ہوئی ضرورت اور خاص طور پر انٹر ایکٹو ایپلیکیشنز کے استعمال سے ہم آہنگ ہوں اور ایک تبدیل شدہ تعلیمی ماحول میں طلبہ سے رابطہ رکھنے، انہیں مشغول رکھنے اور ان کی کارکردگی کی نگرانی کرنے کے اہل ہوں۔

مزید پڑھیے: آن لائن پڑھانے کا میرا اب تک کا تجربہ

اب ایک ’اچھے‘ استاد کا تصور ڈرامائی انداز میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ضروری نہیں کہ اگر ایک شخص کو گاڑی چلانے میں مہارت ہے تو وہ ٹرک بھی اسی مہارت سے چلا سکے۔ روایتی تعلیم سے آن لائن تعلیم پر منتقلی نہ صرف متعدد چیلنجز کے ساتھ بہت اچانک تھی بلکہ اس کے لیے کچھ ایسی صلاحیتیں بھی درکار تھیں جو بنیادی سمجھ بوجھ سے بڑھ کر تھیں۔

آن لائن کلاس لینے کی بنیاد تو کمپیوٹر کے استعمال اور لرننگ پلیٹ فارمز کی سمجھ بوجھ پر منحصر تھی۔ تاہم وہ طریقہ کار جن کے باعث طلبہ کو گہرائی میں اور بامعنی تعلیم فراہم کی جائے، بالکل ہی الگ کھیل تھے۔

آن لائن پڑھانے کے بارے میں آگہی ہونا اور ایک مؤثر آن لائن استاد بننا دو بہت مختلف چیزیں ہیں۔ ہم میں سے اکثر کو تدریس کے بالمشافہ طریقوں کو نقل کرنے، ماضی کی طرح نصاب کو مکمل کروانے اور ہوم ورک دینے میں کئی طرح کی مشکلات کا سامنا ہوا۔

حقیقت یہ ہے کہ اب تو ہر کام ہی ہوم ورک ہے۔ آن لائن تعلیم طلبہ سے یہ سیکھنے کا مطالبہ کرتی ہے کہ سیکھا کیسے جائے، انہیں معلومات کے حصول کے لیے انٹرنیٹ کا زیادہ استعمال کرنا پڑتا ہے، ایسی ویڈیوز اور ایپلیکیشنز کا سہارا لینا پڑتا ہے جو استاد کے وقت کی متبادل ہوں اور اپنے تجسس کو کام میں لاتے ہوئے اپنی معلومات کی حد کو بڑھانا ہوتا ہے۔

ایک سابق امریکی صدر کے الفاظ میں یہ ’ایک کھلی سڑک کا لالچ‘ ہے۔ آن لائن تعلیم کا مطلب یہ کھوج لگانا ہے کہ یہ سڑک ہمیں کہاں تک لے جاتی ہے اور ہمارے اساتذہ اس راستے کو طلبہ کی عمر کے مطابق پہلے سے متعین کردہ نتائج کے حصول کے لیے کس طرح استعمال کرتے ہیں۔

اس عمل میں ضروری ہے کہ انہیں خود کو نئے تعلیمی ماحول کے مطابق ڈھالنے میں مدد دی جائے، انہیں آن لائن ذرائع کے استعمال میں ماہر بنایا جائے اور انہیں اکیلے یا ساتھیوں کے ساتھ مل کر معلومات تلاش کرنے اور ترتیب دینے کے بعد تحریر یا کسی اور صورت میں پیش کرنے کے حوالے سے بااختیار بنایا جائے۔ صرف یہ جاننا کہ آن لائن کلاس میں کس طرح شامل ہونا ہے ایک طرح سے جامد تعلیم کا اظہار ہے جو ہمیں اس دھوکے میں قید رکھتا ہے کہ ہم نے اپنے روایتی طریقہ تعلیم کو آن لائن تعلیم کے مطابق ڈھال لیا ہے۔

مزید پڑھیے: آئندہ چند سال یونیورسٹیوں کے لیے ہنگامہ خیز کیوں ہوں گے؟

ڈیجیٹل ہجرت بھی کسی نئے ملک میں ہجرت کے مترادف ہے۔ ہم نئی زندگی کے مطابق خود کو اس حد تک تو ڈھال لیتے ہیں کہ ہمارے روز و شب بغیر کسی رکاوٹ کے گزر سکیں لیکن ضروری نہیں کہ ہم ایک بامعنی زندگی بھی گزار رہے ہوں کہ جس میں ہمیں ایک تکمیل اور نئے معاشرے میں شراکت داری کا احساس ہو۔

ایک جانب کھڑے رہ کر مشکلات اور پریشانیوں کا شکوہ کرنے سے بہتر ہے کہ ہم مواقعوں اور ترقی پر نظر رکھیں اور اپنے آپ کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور اپنے طلبہ کو بااختیار بنانے کے لیے مدد اور وسائل کی تلاش کریں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی استاد یہ سمجھتا ہے کہ زوم پر دستیاب کلاس کا وقت اس کے لیے ناکافی ہے تو وہ پوڈ کاسٹ کا ایک سلسلہ شروع کرسکتا ہے جسے طلبہ اپنی سہولت سے کسی بھی وقت سن سکیں۔

جیسے جیسے عالمی سطح پر آن لائن نظام اور تعلیمی پلیٹ فارمز مقبول ہورہے ہیں ویسے ویسے ہمیں بھی ڈیجیٹل ہجرت کے لیے فوری اور ضروری اقدامات کرنے ہوں گے۔ ہم خود کو جتنا جلدی اس نئی دنیا کے مطابق ڈھال لیں گے اتنی جلدی ہی ہم آن لائن تعلیم کے بھی عادی ہوجائیں گے۔

186 ممالک میں ایک ارب 20 کروڑ طلبہ اسکولوں کی بندش سے متاثر ہیں۔ یہاں ہمیں کچھ فیصلے کرنے ہوں گے، ہم یا تو آن لائن تعلیم کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرتے رہیں یا پھر ان وسائل کی تلاش کریں جو ہمارے اساتذہ کی صلاحیتوں کو بڑھا سکیں۔

آن لائن تعلیم کے ناقدین جہاں اس کی افادیت پر سوال اٹھاتے ہیں وہیں تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ آن لائن تعلیم میں نہ صرف معلومات کو سمجھنے سے متعلق طلبہ کی قوت بہتر ہوئی ہے بلکہ اس میں بالمشافہ تعلیم کی نسبت نصاب کی تکمیل میں بھی کم وقت لگتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم آن لائن تعلیم کے حوالے سے موجود غلط فہمیوں کو ختم کریں۔


یہ مضمون 26 جولائی 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں