کورونا وائرس کے مقابلے میں ہیپاٹائٹس کی مختلف اقسام کے باعث پاکستان بھر میں روزانہ 4 گنا زیادہ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار ماہرین امراض پیٹ اور جگر نے ورلڈ ہیپاٹائٹس ڈے 2021 کے حوالے سے کراچی پریس کلب میں منعقد آگاہی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

ماہرین کے مطابق ہیپاٹائٹس بی اور سی کے نتیجے میں پاکستان میں روزانہ 300 سے زائد افراد ہلاک ہو جاتے ہیں جو کہ کورونا وائرس کے نتیجے میں ہونے والی اموات سے تین سے چار گنا زیادہ ہیں۔

سیمینار میں شریک ماہرین — فوٹو بشکریہ کراچی پریس کلب فیس بک پیج
سیمینار میں شریک ماہرین — فوٹو بشکریہ کراچی پریس کلب فیس بک پیج

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس بی اور سی کے مریضوں کی تعداد چین کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور ہر سال ہزاروں افراد ان دو مہلک وائرسز سے متاثر ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔

ہیپاٹائٹس کے حوالے سے آگاہی سیمینار کا اہتمام پاک جی آئی اینڈ لیور ڈیزیزز سوسائٹی (پی جی ایل ڈی ایس) نے کراچی پریس کلب کے تعاون سے کیا تھا۔ سیمینار سے پی جی ایل ڈی ایس کی صدر ڈاکٹر لبنیٰ کمانی, وائس پریزیڈنٹ ڈاکٹر نازش بٹ، پروفیسر ڈاکٹر شاہد احمد، پروفیسر امان اللہ عباسی اور ڈاکٹر سجاد جمیل نے بھی خطاب کیا۔

لیاقت نیشنل اسپتال اور آغا خان یونیورسٹی اسپتال سے وابستہ ڈاکٹر لبنیٰ کمانی کا کہنا تھا کہ پاکستان کو کورونا کے ساتھ ساتھ ہیپاٹائٹس بی اور سی کی وبا کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے جہاں روزانہ 300 سے زائد افراد ہیپاٹائٹس کے نتیجے میں ہونے والی جگر کی پیچیدگیوں کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔

فوٹو بشکریہ کراچی پریس کلب فیس بک پیج
فوٹو بشکریہ کراچی پریس کلب فیس بک پیج

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس بی اور سی کے مریضوں کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے زائد ہے اور ہر سال ان میں ڈیڑھ لاکھ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے۔

ڈاکٹر لبنی کمانی نے بتایا کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی آلودہ خون کے ذریعے ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتے ہیں جس کا ذریعہ ایک سے زائد بار استعمال کی جانے والی سرنجز، ڈرپس، دانتوں کے ڈاکٹروں اور حجاموں کے آلودہ آلات اور ناک اور کانوں کو چھیدنے والی آلودہ سوئیاں ہوتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت پاکستان کو اس مرض سے 2030 تک جان چھڑانی ہے تو اسے ملک کی 90 فیصد آبادی کو ان دو امراض کے لئے اسکرین کرنا ہوگا اور اس مرض میں مبتلا 80 فیصد افراد کو علاج کی سہولیات فراہم کرنا ہوں گی۔

فوٹو بشکریہ کراچی پریس کلب فیس بک پیج
فوٹو بشکریہ کراچی پریس کلب فیس بک پیج

جناح اسپتال سے وابستہ ڈاکٹر نازش بٹ کا کہنا تھا کہ سندھ کے کچھ علاقوں جن میں جیکب آباد، لاڑکانہ، قمبر اور سندھ بلوچستان کے سرحدی قبائلی علاقے شامل ہے، وہاں پر اس مرض کی شرح 15 سے 25 فیصد تک ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ دیہی علاقوں کے ساتھ ساتھ شہروں میں ہیپاٹائٹس بی اور سی کی اسکریننگ کو بڑھائے، عوام الناس میں شعور پیدا کر کے اس مرض کو بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے۔

پی جی ایل ڈی ایس کے کے سرپرست اعلی پروفیسر ڈاکٹر شاہد احمد کا کہنا تھا کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی نہ صرف قابل علاج مرض ہیں بلکہ ان کا علاج نہایت سستا اور آسان بھی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ کراچی سمیت ملک بھر میں درجنوں فلاحی تنظیمیں اور حکومتی ادارے ہیپاٹائٹس بی اور سی کی نہ صرف اسکریننگ کرتے ہیں بلکہ اس مرض میں مبتلا ہونے والے افراد کو مفت ادویات بھی فراہم کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا کو اس مرض کے حوالے سے عوام میں شعور پیدا کرنا چاہیے تاکہ وہ اس جان لیوا مرض کا جلد سے جلد علاج کروا کے صحت مند زندگی گزار سکیں۔

لیاقت نیشنل اسپتال سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر سجاد جمیل کا کہنا تھا کہ عوام کو نہ صرف کورونا وبا کے خلاف ویکسین لگوانی چاہیے بلکہ وہ ہیپاٹائٹس سمیت دیگر بیماریوں سے بھی ویکسین لگوا کر محفوظ رہ سکتے ہیں بلکہ اپنے اردگرد دیگر افراد کو بھی ان سے بچا سکتے ہیں۔

ڈاؤ یونیورسٹی کراچی کے پروفیسر اور سابق رجسٹرار پروفیسر امان اللہ عباسی کا کہنا تھا کہ سندھ اور بلوچستان کے دیہی علاقوں میں ہیپاٹائٹس بی اور سی کے حوالے سے شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں شراب نوشی کی وجہ سے بھی لوگوں کے جگر خراب ہو رہے ہیں جگر کی بیماریوں کے حوالے سے لوگوں میں شعور پیدا کر کے انہیں جوانی میں اموات سے بچایا جا سکتا ہے۔

اس موقع پر کراچی پریس کلب کے اراکین، ان کے اہل خانہ اور ملازمین کے لیے ہیپاٹائٹس بی اور سی کے ٹیسٹ بھی کیے گئے، آگاہی سیمینار کے بعد لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کے لیے مختصر واک بھی کی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں