تھر میں امریکی باسکٹ بال اسٹار کی مدد سے سولر واٹر سینٹر قائم

اپ ڈیٹ 30 جولائ 2021
تھر میں پانی کی فراہمی کے کامیاب منصوبے کے بعد ایک بچے نے امریکی باسکٹ بال کھلاڑی کی تصویر تھامی ہوئی ہے جس میں انہیں کائری ارونگ کا شکریہ ادا کرتے دیکھا جا سکتا ہے— فوٹو بشکریہ پانی/ٹوئٹر
تھر میں پانی کی فراہمی کے کامیاب منصوبے کے بعد ایک بچے نے امریکی باسکٹ بال کھلاڑی کی تصویر تھامی ہوئی ہے جس میں انہیں کائری ارونگ کا شکریہ ادا کرتے دیکھا جا سکتا ہے— فوٹو بشکریہ پانی/ٹوئٹر
تھر میں سولر واٹر سینٹر سے وہاں کے رہائشی استفادہ کررہے ہیں— فوٹو بشکریہ پانی
تھر میں سولر واٹر سینٹر سے وہاں کے رہائشی استفادہ کررہے ہیں— فوٹو بشکریہ پانی

امریکی باسکٹ بال سپر اسٹار کائری ارونگ کی چیریٹی فاؤنڈیشن نے 'پانی' نامی غیر منافع بخش تنظیم (این جی او) کے اشتراک سے صوبہ سندھ کے علاقے تھر میں شمسی واٹر سینٹر تعمیر کیا ہے جو وہاں صاف پانی اور کھیتی کے لیے سہولیات مہیا کررہا ہے۔

تھر میں خیراتی کاموں میں کائری ارونگ کی شمولیت کا انکشاف اس وقت ہوا جب 'پانی' نے اپنے منصوبے کے سلسلے میں دی جانے والی امداد پر امریکی کھلاڑی کا شکریہ ادا کیا، انہوں نے اپنی کے ای آئی فیملی فاؤنڈیشن کے ذریعے پاکستانی این جی او کی مدد کی۔

مزید پڑھیں: تھرپارکر: 'زیر زمین 9 ارب کیو بک میٹر پانی کو قابل استعمال بنانا ممکن ہے'

ایک ٹوئٹ میں این جی او نے کہا کہ این بی اے کے سپر اسٹار اور انسان دوست کھلاڑی کائیری ارونگ نے اپنی کے ایآئی فیملی فاؤنڈیشن کے تعاون سے سندھ میں 'پانی' کا سولر واٹر سینٹر تعمیر کیا ہے جس کی بدولت علاقے کے اک ہزار گاؤں کے لوگ کی صاف پانی کی رسائی ہو سکے گی۔

پانی پراجیکٹ میں مزید بتایا گیا کہ تھر کے رہائشیوں کو کھیتی باڑی میں مدد ملی ہے اور وہ خواتین اور بچوں کو روشنی فراہم کرتی ہے۔

اس حوالے سے ٹوئٹ میں ایک ویڈیو پوسٹ کی گئی جس میں تھر میں پانی کی قلت کی وجہ سے خواتین کو درپیش مشکلات پر روشنی ڈالی گئی ہے اور اس بات کی بھی آگاہی فراہم کی گئی کہ ارونگ کے اس کی بدولت انہیں آنے والے مسائل پر قابو پانی میں کس طرح مدد ملی۔

خشک سالی اور اموات

تھر میں پانی کی قلت ایک دیرینہ مسئلہ رہا ہے اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو سن 2016 میں ایک بریفنگ کے دوران بتایا گیا تھا کہ تھر میں پچھلے تین سالوں کے دوران 828 بچے لقمہ اجل بن چکے ہیں اور خشک سالی ان اموات کی بڑی وجہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تھر: موت بھرا پانی

بلوچستان سے انسانی حقوق کے نیشنل کمیشن کی رکن فضیلہ آلیانی نے اس وقت مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا تھا کہ تھر کا کم از کم 97 فیصد رقبہ صحرائی ہے اور گزشتہ تین سالوں سے اس علاقے میں بارش نہیں ہورہی ہے اور اسی وجہ سے پانی کی دستیابی ایک سنگین مسئلہ بن گیا ہے، لوگ اپنی زمین پر کچھ بھی کاشت نہیں کرسکتے اور اس وجہ سے غذائیت قلت بھی ایک سنگین مسئلہ ہے جبکہ پانی کی کمی کی وجہ سے مویشیوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دستیاب پانی میں کلورین کی مقدار ضرورت سے زیادہ ہے اور اس سے لوگوں میں صحت کے متعدد مسائل پیدا ہو رہے ہیں، اس کے علاوہ صوبائی اور ضلعی حکومتوں نے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی مناسب اقدام نہیں اٹھایا ہے۔

فضیلہ آلیانی نے مزید کہا تھا کہ حکومت نے ریورس اوسموسس کے 700 پلانٹ لگانے کا فیصلہ کیا تھا لیکن صرف 432 نصب کیے گئے اور ان میں سے بیشتر غیرفعال ہیں۔

آر او پلانٹس

ایک حالیہ پیشرفت میں تھر سمیت اطراف کے علاقوں کے تمما اوسموسس پلانٹس غیرفعال ہونے کے سبب تھر فاؤنڈیشن نے پبلک پرائیویٹ ارٹنرشپ کے تحت تھر میں تمام آر او پلانٹس کی ذمے داری لینے کی خواہش ظاہر کی تھی۔

مزید پڑھیں: تھر میں میرے سوا کسی نے آر او پلانٹ کا پانی پینے کی کوشش نہیں کی، چیف جسٹس

تھرڈ فاؤنڈیشن نے تھر کے عوام کو پینے کے صاف پانی کی دوبارہ یقینی بنانے کے لیے ان کو چلانے کی پیش کش کی تھی جس میں بعض اضلاع کے 635 آر او پلانٹس میں سے 95 فی صد غیر فعال ہیں۔

واضح رہے کہ یہ پیشکش کرنے والی تھر فاؤنڈیشن اسلام کوٹ میں چار سالوں سے 17 آر او پلانٹس کامیابی سے چلا رہی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں