گورنر پنجاب نے 'متنازع' استحقاق بل مسترد کردیا

اپ ڈیٹ 30 جولائ 2021
گورنر نے بل مسترد کر کے اسپیکر پنجاب اسمبلی کو واپس بھجوایا — فائل فوٹو: ڈان نیوز
گورنر نے بل مسترد کر کے اسپیکر پنجاب اسمبلی کو واپس بھجوایا — فائل فوٹو: ڈان نیوز

لاہور: صوبائی اسمبلی (مراعات) ترمیمی بل 2021، جس میں ایوان، کسی کمیٹی یا رکن کے استحقاق کی خلاف ورزی پر بیوروکریٹ کی سزا تجویز کی گئی ہے، پر تنازع بڑھ گیا اور صوبائی و وفاقی حکومتیں سول بیوروکریسی کے دباؤ کے آگے جھک گئیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دباؤ کے باعث اور پنجاب و وفاقی حکومتوں کی سفارش پر گورنر پنجاب نے صوبائی اسمبلی (مراعات) بل مسترد کر کے اسپیکر صوبائی اسمبلی کو واپس بھجوا دیا۔

29 جون کو پنجاب اسمبلی سے منظور ہونے والے بل میں ایوان، اس کی کمیٹی یا رکن کے استحقاق کی خلاف ورزی پر صحافی کے لیے بھی سزا تجویز کی گئی تھی لیکن صحافتی تنظیموں کے احتجاج کے بعد یہ تجویز واپس لے لی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: بیوروکریٹس کی کارکردگی کا جائزہ لینے کیلئے نیا طریقہ کار وضع کرنے کی ہدایت

ذرائع کا کہنا تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو احساس ہوا کہ ایسا کوئی بھی قانون عہدیداران کو دیوار سے لگا دے گا اور وہ کام نہیں کریں گے کیوں کہ پی ٹی آئی حکومت اب تک بیوروکریٹس کا اعتماد حاصل نہیں کر پائی۔

ان کا کہنا تھا کہ بیوروکریٹس اس احتیاط کی وجہ سے پہلے ہی سست روی سے کام کر رہے ہیں کہ انہیں نیب، ایف آئی اے یا اینٹی کرپشن سے نوٹس نہ مل جاتے ہیں۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی ہدایات کے بعد گورنر نے مذکورہ بل واپس اسپیکر پنجاب اسمبلی کو بھیجتے ہوئے متعدد ہدایات بھی دیں۔

چوہدری سرور نے کہا کہ پنجاب استحقاق ایکٹ کی دفعہ 11 سی میں 'میڈیا پرسنز کے سوا' کے الفاظ کے ساتھ ترمیم اس وقت تک نہیں کی جاسکتی جب تک کہ ایکٹ کے ساتھ شامل شیڈول میں بھی اشاعت اور رپورٹنگ سے متعلق کاموں اور غلطیوں کے حوالے سے ترمیم نہ کی جائے۔

مزید پڑھیں: اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا سرکاری ملازمین کے اثاثے ظاہر کرنے سے انکار

گورنر پنجاب نے یہ بھی کہا کہ مذکورہ بل کا آئین کی دفعات 8، 10، 10-اے، اور 25 کے تحت جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آرٹیکل 66 (2) کے تحت استحقاق ایکٹ 1972 کی 'پیش کش' کو تبدیل کردیا گیا ہے جبکہ آرٹیکل 66 (2) کی روح، 1973 کے آئین کے تحت ایک نیا قانون تشکیل دینے کی محسوس ہوتی ہے۔

گورنر پنجاب نے کہا کہ 1972 کے عبوری آئین کے تحت کسی قانون میں ترمیم کے بجائے ایک نیا قانون درکار ہے جو نتیجتاً منسوخ ہوجائے گی۔

دوسری جانب اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہٰی نے پروڈکشن آرڈرز جاری ہونے کے باوجود پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی نذہر چوہان کو پیش نہ کرنے پر سول بیوروکریسی پر برہمی کا اظہار کیا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ اسپیکر نے بیوروکریٹس کو خبردار کیا کہ ان سے اسمبلی کی ہدایات پر عملدرآمد کروایا جائے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں