کابل: 'گرین زون' کے قریب دھماکا اور فائرنگ، 3 افراد ہلاک

اپ ڈیٹ 04 اگست 2021
کابل میں دھماکا ہوا جس کے بعد فائرنگ ہوئی—فوٹو:اے پی
کابل میں دھماکا ہوا جس کے بعد فائرنگ ہوئی—فوٹو:اے پی

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں غیر ملکی سفارت خانوں اور سرکاری عمارتوں کے مرکز ‘گرین زون’ کے قریب دھماکے کے بعد شدید فائرنگ کے نتیجے میں 3 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔

خبرایجنسی رائٹرز کے مطابق پولیس حکام کا کہنا تھا کہ ‘گرین زون’ کے قریب پہلے دھماکا ہوا اور اس کے بعد فائرنگ شروع ہوئی۔

مزید پڑھیں: افغانستان: صوبائی دارالحکومتوں پر حملے کے بعد لڑائی شدید ہوگئی

افغان وزارت صحت کے ترجمان غلام دستگیر ناظری کا کہنا تھا کہ واقعے میں 3 افراد جاں بحق اور دیگر 7 زخمی ہوگئے ہیں اور تصادم جاری ہے۔

—فوٹو: اے پی
—فوٹو: اے پی

سینئر سیکیورٹی عہدیدار کا کہنا تھا کہ یہ کار بم دھماکا تھا اور بظاہر اراکین پارلیمنٹ کی رہائش گاہ نشانہ تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ دو مسلح افراد تاحال جائے وقوع پر موجود ہیں اور افغان سیکیورٹی فورسز کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔

کابل کے ایمرجنسی ہسپتال نے ٹوئٹر پر کہا کہ ان کے پاس تاحال 6 زخمیوں کو لایا گیا ہے۔

خبرایجنسی اے ایف پی کے رپورٹر نے بتایا کہ پہلے دھماکے کے دو گھنٹے بعد ایک اور دھماکا ہوا اور فائرنگ میں تیزی آئی۔

دوسرے دھماکے کے بعد شہر کے وسطی علاقے میں مزید چھوٹے پیمانے کے دھماکے بھی ہوئے جو گرین زون سے زیادہ دور نہیں ہوئے۔

کابل میں دھماکوں اور فائرنگ کی ذمہ داری تاحال کسی گروپ کی جانب سے تسلیم نہیں کی گئی۔

رپورٹ کے مطابق دھماکا ہونے کے چند منٹ بعد شہری اللہ اکبر کہتے ہوئے گھروں سے باہر آئے اور طالبان کے خلاف افغان حکومت سے اظہار یک جہتی کیا۔

یہ بھی پڑھیں:القاعدہ افغانستان کے 15 صوبوں میں موجود ہے، اقوام متحدہ

کابل کے شہریوں نے رات کے اس پہر شہر کے مختلف علاقوں میں مارچ کیا، جس میں چند خواتین بھی شامل تھیں، مظاہرین نے ہاتھوں میں موم بتیاں افغان پرچم اٹھائے ہوئے تھے۔

مظاہرے میں شامل ایک شہری نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پوری دنیا کابل میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر خاموش رہ سکتی ہے لیکن ہم خاموش نہیں رہ سکتے اور مزید خاموش نہیں رہیں گے، ہم آخری سانس تک اپنی سیکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے افغان فورسز نے ملک کے مختلف صوبوں میں طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری کی تھی جبکہ طالبان نے بھی حملوں کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے بڑے شہروں کی جانب پیش قدمی کردی تھی۔

رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ ہرات میں سیکڑوں کمانڈر تعینات کردیے گئے ہیں جبکہ لشکر گاہ شہر میں حملوں کو روکنے کے لیے مزید فوجی دستوں کو طلب کرلیا گیا ہے اور افغان فوج کے فضائی حملوں میں درجنوں افراد سڑکوں پر ہلاک ہوئے ہیں۔

ہرات کے صوبائی گورنر کے ترجمان جیلانی فرہاد نے بتایا تھا کہ حملوں میں 100 عسکریت پسند مارے گئے لیکن ان کے اس دعوے کی آزادانہ تصدیق ہونا مشکل ہے۔

2 لاکھ آبادی والے شہر لشکر گاہ کے ایک رہائشی نے بتایا تھا کہ 'شہر کے ہر حصے پر بمباری کی گئی ہے اور دونوں فریقین کے درمیان لڑائی گلیوں میں جاری ہے۔

دوسری جانب لشکر گارہ میں انسانی امدادی تنظیموں کا کہنا تھا کہ ان کے ہسپتالوں میں درجنوں زخمی لائے گئے اور وہ اپنی گنجائش کے 90 فیصد تک بھر گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں اب بھی غیر ملکی جنگجو موجود ہیں، اقوام متحدہ

افغانستان میں مئی کے آغاز سے لڑائی میں اس وقت اضافہ ہوا جب غیر ملکی افواج نے انخلا شروع کیا جو اب تقریباً مکمل ہوچکا ہے۔

طالبان نے بڑے دیہاتی رقبے اور اہم سرحدی گزرگاہوں پر قبضے کے بعد اب صوبائی دارالحکومتوں پر حملے کرنا شروع کر دیے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں