حکومت کو ٹربیونل کے سربراہ کے تقرر کیلئے منظوری کی ضرورت نہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ

اپ ڈیٹ 05 اگست 2021
چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ڈاکٹر پرویز حسن جیسے نامور پیشہ ور کی موجودگی کا شرف حاصل ہے. - فائل فوٹو:اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ
چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ڈاکٹر پرویز حسن جیسے نامور پیشہ ور کی موجودگی کا شرف حاصل ہے. - فائل فوٹو:اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: اعلیٰ آئینی عہدوں پر تقرریوں کے لیے عدالتی منظوری پر جاری بحث کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ اگر اس کے چیف جسٹس، ایگزیکٹو ڈومین کے تحت آنے والی تقرریوں کے عمل میں ملوث ہے تو یہ مفادات کا ٹکراؤ ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی تحفظ ٹربیونل کے چیئرمین کے تقرر پر مشاورت کے لیے وزارت ماحولیاتی تبدیلی اور وزارت قانون کی درخواست کے جواب میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کورٹ رجسٹرار کے ذریعے اپنی رائے دی ہے جس میں انہوں نے اس طرح کے مشاورتی عمل میں عدلیہ کو شامل کرنے کے ثمرات کی نشاندہی کی ہے۔

حکومت نے جسٹس (ر) ضیا پرویز کو اس عہدے کے لیے نامزد کیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے رائے دی ہے کہ چونکہ چیئرپرسن کے تقرر کا اختیار وفاقی حکومت کا ہے اس لیے اسے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ کا بیوروکریٹس کی ترقی برقرار رکھنے کا فیصلہ

مزید یہ کہ ٹریبونل کے احکامات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے چیلنج کیا جاسکتا ہے اس لیے اس کے سربراہ کے تقرر میں عدلیہ کی شمولیت انصاف کے اصولوں کے خلاف ہوگی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایگزیکٹو، مقننہ اور عدلیہ کے مابین اختیارات کی تقسیم کے اصولوں کی بنیاد پر آئین کو بنایا گیا ہے، ایگزیکٹو نوعیت کے امور میں مشاورت اور عدالتوں میں جوڈیشل افسران کی تعیناتی کو اس کے اصولوں کے مطابق سمجھنا اور اس کی تشریح کرنا ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ 'آئین کے آرٹیکل 175 کے تحت قائم عدالتوں کے جوڈیشل افسران کی تقرریوں میں ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی شمولیت نہ تو مطلوب ہے اور نہ ہی آئین سے مطابقت رکھتی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'تاہم موجودہ کیس میں مقننہ نے واضح طور پر فراہم کیا ہے کہ ماحولیاتی ٹربیونل کے چیئرمین کے تقرر چیف جسٹس سے مشاورت سے مشروط ہوگی، اس لیے میں اس رائے میں نمایاں اصولوں کے حوالے سے اپنی قانونی ذمہ داری پوری کر رہا ہوں'۔

ان کا کہنا ہے کہ 'میری یہ رائے ہے کہ مجھے مخصوص شخص پر تبصرہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے جس کو ماحولیاتی ٹربیونل کے چیئرمین کے لیے تجویز کیا گیا ہے، تجویز کردہ چیئرپرسن سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج ہیں تاہم میری ذاتی رائے میں اس سے گریز کیا جانا چاہیے'۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 'اسی طرح میں ہائی کورٹ کے موجودہ یا ریٹائرڈ جج کے تقرر کے حق میں نہیں ہوں'۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس نے عوامی فنڈز کا غلط استعمال کیا، آڈٹ رپورٹ

انہوں نے تجویز دی کہ 'ماحولیاتی خدشات کی اہمیت اور منفی انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے نسل انسانی کے لیے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر یہ یقینی بنانا ناگزیر ہو گیا ہے کہ صرف ایسے شخص کو مقرر کیا جائے جو نہ صرف اہل ہو بلکہ ماحولیاتی قانون اور سائنس کے میدان میں اپنے تجربے، علم اور عزم کے لیے متحرک اور معروف بھی ہو۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ڈاکٹر پرویز حسن جیسے نامور پیشہ ور کی موجودگی کا شرف حاصل ہے جو ماحولیاتی قانون اور سائنس کے شعبے میں ان کی شراکت کے لیے بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیے جاتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ دونوں وزارتیں دیگر اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے ٹربیونل کے چیئرمین کے تقرر سے متعلق اہلیت کا معیار کے جائزے پر غور کر سکتی ہیں۔

اپنی تجویز کا اختتام کرتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ نے واضح کیا کہ 'وفاقی حکومت کو کسی خاص شخص کے بارے میں اس عدالت کے چیف جسٹس کی منظوری لینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس سے مشاورتی رائے میں نمایاں اصولوں کی خلاف ورزی کا امکان ہے'۔

تبصرے (0) بند ہیں