’سپریم کورٹ میں بطور ایڈہاک جج کام کرنے کیلئے کبھی رضامند نہیں ہوا‘

اپ ڈیٹ 09 اگست 2021
جسٹس احمد علی ایم شیخ نے جوڈیشل کمیشن کو ایک مختصر خط ارسال کیا— تصویر: سندھ ہائی کورٹ ویب سائٹ
جسٹس احمد علی ایم شیخ نے جوڈیشل کمیشن کو ایک مختصر خط ارسال کیا— تصویر: سندھ ہائی کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی ایم شیخ نے 5 اگست کو جوڈیشل کمیشن پاکستان کو ارسال کردہ ایک خط میں اس تاثر کو مسترد کردیا کہ وہ کسی بھی مرحلے پر سپریم کورٹ کے اجلاسوں میں بطور ایڈہاک جج شرکت پر متفق تھے یا اپنی رضامندی ظاہر کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن پاکستان (جے سی پی) کا اجلاس منگل کو ہونا ہے جس میں سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی سپریم کورٹ میں بطور ایڈہاک جج تعیناتی پر غور کیا جائے گا۔

اس سے قبل جسٹس علی محمد مظہر کو اسی عدالت کے لیے نامزد کیا گیا تھا جو عدالت عظمیٰ میں مستقل جج بننے کے لیے عدالت عالیہ کی سنیارٹی فہرست میں پانچویں نمبر پر تھے۔

یہ بھی پڑھیں: 'سپریم کورٹ میں بطور ایڈہاک جج تقرر کیلئے جسٹس احمد کی رضامندی نہیں لی گئی‘

جسٹس علی مظہر کی اس ترقی کے ساتھ سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد مقررہ 17 تک پہنچ جاتی، اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کو سپریم کورٹ میں بطور ایڈہاک جج تعینات کیا جائے گا۔

تاہم جوڈیشل کمیشن کو ارسال کردہ ایک مختصر خط میں جسٹس احمد علی ایم شیخ یہ بات ریکارڈ پر لائے کہ وہ نہ تو کبھی اس پر راضی ہوئے تھے اور نہ ہی انہوں نے عدالت عظمیٰ کے ججز میں بطور ایڈہاک جج شامل ہونے کے لیے اپنی رضامندی ظاہر کی۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا کہ انہیں کوئی اعتراض نہ ہوتا اگر انہیں سپریم کورٹ میں بطور مستقل جج تعینات یا ترقی دی جاتی۔

مزید پڑھیں: عدالت عظمیٰ میں جج کے تقرر کا معاملہ: بار کونسلز آج یوم سیاہ منائیں گی

انہوں نے سیکریٹری جوڈیشل کمیشن، جو سپریم کورٹ کے رجسٹرار بھی ہیں، سے کہا کہ ان کا خط کمیشن کے تمام اراکین تک پہنچایا جائے۔

ذرائع کے مطابق چیف جسٹس احمد علی ایم شیخ کا خط سامنے آنے کے بعد ممکنہ طور پر جوڈیشل کمیشن کا منگل کے روز طے شدہ اجلاس منسوخ ہوجائے گا۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر رشید اے رضوی کی توجہ جب اس تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کی جانب مبذول کروائی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی سپریم کورٹ میں بطور ایڈہاک جج تعیناتی قانون کے طریقہ کار کے بغیر ہائی کورٹ سے انہیں ہٹانے کے مترادف ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جونیئر جج کی ترقی: بار کونسلز کا ’حمایت کرنے والے ججز کو الوداعی تقریب‘ نہ دینے کا فیصلہ

انہوں نے کہا کہ یہ آئین کی دفعہ 209 (سپریم جوڈیشل کونسل) کی خلاف ورزی ہے، جس میں قرار دیا گیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے کسی بھی جج کو اس شق کے نفاذ اور ایس جے سی کی کارروائی کے بغیر نہیں ہٹایا جانا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئینی دفعہ میں یہ بات نہیں ہے کہ ایک چیف جسٹس کو عدالت عظمیٰ کے ججز میں بطور ایڈہاک جج شامل ہونے کے لیے مدعو کیا جاسکتا ہے، دوسرا یہ کہ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ چیف جسٹس کا مطلب جج بھی ہے جیسا کہ آرٹیکل 260 کے تحت جج کی تعریف کے تحت فراہم کیا گیا ہے تو ان کی رضامندی ضروری ہے۔

قبل ازیں ایک مشترکہ اجلاس میں جوڈیشل کمیشن پاکستان کی ایگزیکٹو کمیٹیوں کے چیئرمین، جوائنٹ چیئرمین، اراکین، صوبائی اور اسلام آباد بار کونسلز کے صدور نے ایک قرارداد کے ذریعے اس بات پر زور دیا کہ سپریم کورٹ میں تمام تعیناتیوں کے لیے سنیارٹی کے اصولوں پر عمل کرنا چاہیے، تاکہ عدلیہ کے اندر من مانی، اقربا پروری اور گرہ بندی سے بچا جاسکے۔

تبصرے (0) بند ہیں