بلدیہ فیکٹری کیس: 'اگر پتا چلا کہ ریاست ملزم کو بچا رہی ہے تو نوٹس لیں گے'

اپ ڈیٹ 10 اگست 2021
11 ستمبر 2012 کو بلدیہ ٹاؤن میں علی انٹرپرائزز گارمنٹس فیکٹری کی کثیر المنزلہ عمارت میں 260 سے زائد مزدوروں کو زندہ جلا دیا گیا تھا— فائل فوٹو: اے ایف پی
11 ستمبر 2012 کو بلدیہ ٹاؤن میں علی انٹرپرائزز گارمنٹس فیکٹری کی کثیر المنزلہ عمارت میں 260 سے زائد مزدوروں کو زندہ جلا دیا گیا تھا— فائل فوٹو: اے ایف پی

سندھ ہائی کورٹ نے کہا ہے اگر انہیں پتا چلا کہ بلدیہ فیکٹری آتشزدگی کیس میں شریک ملزم کی بریت کے خلاف اپیل دائر کی جانی چاہیے تھی اور نام نہاد بااثر ملزمان کو جان بوجھ کر ریاست کی طرف سے بچایا جا رہا ہے تو وہ اس کا نوٹس لیں گے۔

جسٹس محمد کریم خان آغا کی زیر سربراہی دو رکنی بینچ نے یہ بات دو مجرموں عبدالرحمٰن عرف بھولا اور زبیر عرف چریا کی جانب سے سزا کے خلاف دائر اپیلوں کی سماعت کے دوران کی۔

مزید پڑھیں: سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس: کب کیا ہوا؟

11 ستمبر 2012 کو بلدیہ ٹاؤن میں علی انٹرپرائزز گارمنٹس فیکٹری کی کثیر المنزلہ عمارت میں 260 سے زائد مزدوروں کو زندہ جلا دیا گیا تھا جو ملکی تاریخ کی بدترین صنعتی حادثہ ہے۔

آتشزدگی کے آٹھ سال بعد ستمبر 2020 میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے رحمٰن بھولا اور زبیر چریا کو سزائے موت اور گارمنٹس فیکٹری کے چار چوکیداروں کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

اس وقت کے صوبائی وزیر تجارت و صنعت رؤف صدیقی سمیت چار دیگر ملزمان کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کر دیا گیا تھا۔

پیر کی کارروائی کے دوران اپیل کنندہ زبیر عرف چریا کی جانب سے پیش ہونے والے ایڈووکیٹ یاسین آزاد نے کیس کی پیپر بک اور پیشگی دلائل کے لیے وقت مانگا۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس: ایم کیو ایم کے رحمٰن بھولا، زبیر چریا کو سزائے موت، رؤف صدیقی بری

تاہم انہوں نے دلیل دی کہ زبیر عرف چریا اس کیس کا ایک معمولی ملزم تھا اور مرکزی ملزم کو ٹرائل کورٹ نے بری کر دیا تھا اور ریاست نے ان کی بریت کے خلاف اپیل دائر نہیں کی تھی۔

عدالت کے استفسار پر سندھ رینجرز کی جانب سے پیش ہونے والے خصوصی پبلک پراسیکیوٹر رانا خالد نے درخواست کی کہ انہیں کچھ وقت دیا جائے تاکہ وہ ہدایات لے سکیں کہ آیا بریت کے خلاف اپیل دائر کی جائے گی یا نہیں۔

بینچ نے انہیں ہدایت دی کہ وہ اگلی تاریخ تک عدالت میں اس سلسلے میں رپورٹ داخل کریں کہ اس بات پر عمل ہوا ہے یا نہیں۔

تاہم ججوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ شواہد کو دیکھنے کے بعد اگر ہمیں لگا کہ بریت کے خلاف اپیل دائر کی جانی چاہیے تھی اور نام نہاد بااثر ملزمان کو ریاست جان بوجھ کر بچا رہی ہے تو عدالت اس کا خود نوٹس لے گی۔

مزید پڑھیں: سانحہ بلدیہ فیکٹری: ایم کیو ایم کو کروڑوں روپے بھتہ دینے کا کہا گیا، مالک

بعد ازاں سماعت اگلی تاریخ تک ملتوی کر دی گئی جس کا نوٹیفکیشن بعد میں جاری کیا جائے گا۔

پچھلے سال اکتوبر میں ایم کیو ایم کے تنظیمی کمیٹی کے سابق سیکٹر انچارج رحمٰن بھولا اور ایک پارٹی کارکن زبیر عرف چریا نے انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے دی گئی سزائے موت کو چیلنج کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ میں الگ الگ اپیلیں دائر کی تھیں۔

درخواست گزاروں کے وکیل نے اپیلوں میں دلیل دی تھی کہ ٹرائل کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ کے وضع کردہ اصولوں کی پاسداری کے بغیر منظور کیا گیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ نے استغاثہ کے پیش کردہ شواہد میں تضادات کو نہیں دیکھا، دراصل فیکٹری مالکان اور متعلقہ محکموں کی غفلت کی وجہ سے فیکٹری کے کارکنوں کی موت ہوئی کیونکہ صنعتی یونٹ سے نکلنے کے لیے کوئی ایمرجنسی دروازہ نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کے سامنے بھتہ خوری کا الزام ثابت نہیں ہو سکا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں