امریکی صدر کی فون کال کا انتظار نہیں کر رہا، وزیراعظم عمران خان

اپ ڈیٹ 12 اگست 2021
وزیراعظم نے کہا کہ اسلام آباد، افغانستان میں طرف داریاں نہیں کر رہا— تصویر: فیس بک
وزیراعظم نے کہا کہ اسلام آباد، افغانستان میں طرف داریاں نہیں کر رہا— تصویر: فیس بک

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ امریکی صدر جوبائیڈن کی فون کال کا حقیقت میں ‘انتظار’ نہیں کر رہے ہیں۔

اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر غیر ملکیوں صحافیوں سے گفتگو کے دوران نیوز ایجنسی رائٹرز کے نمائندے کے سوال پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ‘میں سن رہا ہوں کہ صدر جوبائیڈن نے مجھے کال نہیں کی، یہ ان کا معاملہ ہے، ایسا نہیں ہے کہ میں ان کا انتظار کر رہا ہوں’۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان کے پڑوسی کابل میں مسلط کی جانے والی حکومت کو تسلیم نہ کریں، امریکا

وزیراعظم عمران خان کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چند روز قبل ہی قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے کہا تھا کہ اگر جوبائیڈن نے ہماری قیادت کو اسی طرح نظر انداز کیا تو ہمارے پاس اور مواقع بھی ہیں۔

فنانشل ٹائمز کو انٹرویو میں معید یوسف کا کہنا تھا کہ ‘امریکا کے صدر نے ایک اہم ملک کے طور پر وزیراعظم سے بات نہیں کی، حالانکہ امریکا خود کہتا ہے کہ افغانستان میں بہت اہمیت ہے اور ہم اشارے کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں’۔

انہوں نے وضاحت کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ہمیں ہر وقت یہی کہا گیا کہ فون آئے گا، یہ ٹینکیکل وجہ ہے یا کچھ اور لیکن لوگ اس پر یقین نہیں کرتے، اگر فون کال رعایت ہے، اگر سیکیورٹی کے تعلقات ایک رعایت ہیں تو پھر پاکستان کے پاس آپشنز ہیں’۔

وزیراعظم عمران خان نے غیر ملکی صحافیوں سے گفتگو کے دوران افغانستان کی صورت حال، پاکستان پر اس کے اثرات اور جنگ زدہ ملک سے امریکی فوج کے انخلا کے حوالے سے بھی بات کی۔

انہوں نے کہا کہ ‘امریکا جلد بازی میں افغانستان چھوڑ گیا، اگر وہ سیاسی حل چاہتے تھے تو پھر عقل مندی کا تقاضا یہی ہے کہ جب آپ طاقت میں ہوں تو مذاکرات کریں’۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا اب پاکستان پر الزام عائد کر رہا ہے جب کوئی موقع نہیں بچا ہے۔

'امریکا، پاکستان کو صرف افغانستان میں گند صاف کرنے کیلئے کارآمد سمجھتا ہے'

اس سے قبل مذکورہ انٹرویو کے ڈان اخبار میں شائع ہونے والے ایک حصے میں رپورٹ کیا گیا تھا کہ عمران خان نے کہا کہ ‘میرے خیال میں امریکی فیصلہ کر چکے ہیں کہ بھارت اسٹریٹجک شراکت دار ہے، ہوسکتا ہے کہ اسی لیے پاکستان کے ساتھ مختلف سلوک کیا جارہا ہے، پاکستان کو صرف گند صاف کرنے کے لیے کارآمد تصور کیا جاتا ہے’، جو وہ 20 سال سے جاری لڑائی کے بعد افغانستان میں چھوڑ کر جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی چین کے ساتھ قربت بھی امریکی رویے میں تبدیلی کی دوسری وجہ ہے۔

ایسے میں کہ جب عسکریت پسندوں اور افغان حکومت کے مابین مذاکرات تعطل کا شکار ہیں اور افغانستان میں پرتشدد کارروائیاں بڑھ چکی ہیں، واشنگٹن اسلام آباد پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ امن معاہدہ کرانے کے لیے طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔

غیر ملکی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کو صرف یہ گندگی ٹھکانے لگانے کے تناظر میں کارآمد سمجھا گیا ہے جو 20 سال سے ایک فوجی حل تلاش کرنے کی کوشش میں پیچھے رہ گئی ہے جبکہ کوئی عسکری حل تھا ہی نہیں'۔

امریکا سال 2001 میں طالبان کی حکومت ختم کرنے کے 20 سال بعد 31 اگست کو اپنی افواج افغانستان سے نکال لے گا لیکن آج طالبان اس وقت سے کہیں زیادہ علاقے پر قابض ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ اسلام آباد، افغانستان میں طرف داریاں نہیں کر رہا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں افغانستان میں ایک سیاسی تصفیہ مشکل لگ رہا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ جب طالبان کسی تصفیے پر پہنچنے کے لیے پاکستان کے دورے پر آئے تھے اس وقت انہوں نے ان کو قائل کرنے کی کوشش کی تھی۔

وزیر اعظم کے مطابق طالبان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ 'معاملہ یہ ہے کہ جب تک صدر اشرف غنی یہاں موجود ہیں وہ افغان حکومت سے بات چیت نہیں کریں گے'۔

پاکستان پر اثرات

وزیراعظم عمران خان نے صحافیوں سے گفتگو کے دوران زور دیا کہ افغانستان میں کسی قسم کی کشیدگی کی صورت میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان کا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘پوچھا گیا تھا کہ کیا آپ پریشان ہیں، ہم بالکل پریشان ہیں کیونکہ وہاں طویل عرصے سے جاری خانہ جنگی جو ملک براہ راست متاثر ہوگا، وہ افغانستان کے بعد پاکستان ہوگا’۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ طالبان پختون اکثریتی گروپ ہے اور پاکستان میں پختون اکثریتی علاقوں میں اس کے اثرات پڑیں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ‘ایسا 2003/2004 میں ہوا تھا کہ افغانستان میں ہونے والے واقعات پر ہمارے پختون علاقوں میں ردعمل آیا تھا اور پاکستان نے 70 ہزار شہری گنوائے کیونکہ ہم امریکا کی حمایت کر رہے تھے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اس مرتبہ بھی یہ خدشہ ہے کہ ہمارے پختون علاقوں میں دوبارہ مسائل ہوں گے جبکہ تقربیاً 30 لاکھ افراد قبائلی علاقوں سے بے گھر ہوگئے تھے’۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کا طالبان کو طاقت کے ذریعے اقتدار میں آنے پر انتباہ

وزیراعظم نے نشاندہی کی کہ پاکستان میں پہلے ہی 30 لاکھ رجسٹرد مہاجرین ہیں اور بڑی تعداد شمار میں بھی نہیں ہے، دوسری جانب ‘ہماری معیشت ابھی بحال ہو رہی ہے تو ہم نہیں چاہتے کہ مہاجرین کا ایک اور ریلہ آئے’۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں خانہ جنگی سے پاکستان کے وسطی ایشیا سے منسلک ہونے اور معاشی ایجنڈے کے منصوبے کو نقصان پہنچے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ طالبان کی جانب سے افغان حکومت کو عسکری قبضے کے ذریعے بے دخل کردیا تو پاکستان کے لیے ‘ڈراؤنا خواب جیسے حالات’ ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کثیرالنسلی ملک ہے، اگر طالبان نے قبضے کی کوشش کی اور ایک گروپ کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کی تو پھر اس سے ‘مسلسل بدامنی ہوگی اور پاکستان ایسا نہیں چاہتا ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں کشیدگی سے پاکستان پر اثرات ہوں گے۔

عمران خان نے کہا کہ ‘افغانستان کے مقابلے میں پاکستان کی آبادی کا بڑا حصہ پختون ہے اور وہ ممکنہ طور پر دنیا میں غیرملکی تسلط کے خلاف سب سے زیادہ بپھرے ہوئے لوگ ہیں، عام حالات میں وہ ایک دوسرے سے لڑتے ہیں لیکن بیرونی فورسز کا معاملہ آتا ہے تو وہ سب یکجا ہوجاتے ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ امریکا کی قیادت میں 2001 میں شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شمولیت سے ‘قبائلی علاقوں میں خانہ جنگی’ ہوئی اور اس کے نتیجے میں جہاد کے نام پر انتہاپسند تنظیمیں وجود میں آئیں جو روس کے خلاف تھی وہ پاکستان کے خلاف ہوگئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان کے مفاد میں ہے کہ افغانستان میں ایک سیاسی حل نکلے اور تمام فریقین مل کر حکومت بنائیں، جس میں ان کی نمائندگی ہو’۔

'طالبان پر پاکستان کا اثر و رسوخ نہیں'

وزیراعظم نے طالبان پر پاکستان کے اثر و رسوخ کے حوالے سے ایک سوال پر کہا کہ 2001 میں جب پاکستان نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تھا اور ان پر ‘سب سے زیادہ اثر و رسوخ رکھتا تھا’ تو اس وقت بھی انہوں نے اسامہ بن لادن کی حوالگی سے انکار کردیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ‘پاکستان کا ان پر اثر و رسوخ نہیں رہا’۔

مزید پڑھیں: طالبان کا افغانستان کے مزید 3 صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ

ان کا کہنا تھا کہ جو کوئی یہ سمجھتا ہے کہ افغانستان کو باہر سے بیٹھ کر کنٹرول کیا جاسکتا ہے تو وہ افغانوں کے رویوں سے واقف نہیں ہے اور لوگ کٹھ پتلی نہیں ہوسکتے۔

عمران خان نے کہا کہ ‘اگر میں 1990 کی دہائی میں پاکستان کا پالیسی ساز ہوتا تو میں اسٹریٹجک ڈیپتھ کے اس منصوبے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا جو اس وقت پاکستان کی پالیسی تھی’۔

انہوں نے کہا کہ ‘یہ قابل فہم بات ہے کیونکہ بھارت جو حجم میں پاکستان سے 7 گنا زیادہ ہے، جو مغربی ہمسایے سے کشیدگی میں ملوث تھا اور پاکستان کا سیکیورٹی سیٹ اپ دو محاذوں پر کشیدگی کا شکار تھا تو اسی لیے ہمیشہ افغانستان میں پاکستان کی حامی حکومت کی کوشش کی گئی’۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان حکومت پر اثر و نفوذ کی کوششیں کام نہیں آئیں گی کیونکہ افغانستان کے عوام اس کو تسلیم نہیں کریں گے اور باہر سے کنٹرول کرنے کا کوئی بھی تاثر ساکھ ختم کردے گا۔

انہوں نے کہا کہ ‘پاکستان کو کسی بھی حکومت کے ساتھ کام کرنا چاہیے جس کو افغانستان کے عوام نے منتخب کیا ہو’۔

افغان حکومت کا رویہ

وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ رواں برس کے اوائل میں طالبان کے سینئر رہنماؤں کے دورہ پاکستان کے موقع پر انہیں سیاسی حل کے لیے راغب کرنے کی کوشش کی تھی لیکن انہوں نے صدر اشرف غنی سے مذاکرات سے انکار کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے 2019 صدارتی انتخابات سے قبل عبوری حکومت کی تجویز دی تھی لیکن اس بیان پر افغان حکومت نے بڑی تنقید کی تھی اور جب اشرف غنی منتخب ہوئے اور طالبان کو شامل نہیں کیا گیا تو پھر اس کے بعد مسائل شروع ہوئے اور اسی وقت سے انہیں تسلیم کرنے اور مذاکرات کرنے پر زور دیتا رہا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ‘اب افغان حکومت، پاکستان پر بہت زیادہ تنقید کر رہی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ جادوئی طاقت ہے، جس کے ذریعے ہم طالبان سے جو کروانا چاہیں کروائیں گے’۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ امریکی انخلا کے بعد پاکستان کو حاصل سہولت ختم ہوچکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب امریکا نے انخلا کی تاریخ دی ہے، تب سے طالبان کو سمجھانا مشکل ہوگیا ہے اور اب افغان حکومت وہاں کی صورت حال پر الزام پاکستان کو دے رہی ہے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ‘وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے پاس سپر نیچرل طاقت ہے اور ہم سپر پاور پلس ہیں اور ایسی طاقت ہے کہ 60 ہزار سے 70 ہزار طالبان کو افغان حکومت کے 3 لاکھ فوجیوں سے، جو ایئرکرافٹ اور جدید ہتھیاروں سے لیس ہے، اس کے باوجو ہم طالبان کو کامیابی دلانے کی طاقت رکھتے ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ افغان حکومت چاہتی ہے کہ امریکا دوبارہ مداخلت کرے لیکن وہ یہاں 20 سال تک رہے ہیں تو وہ اب ایسا کیا کریں گے جو وہ گزشتہ 20 سال میں نہ کرسکے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان نے واضح کردیا ہے کہ ‘ہماری سرزمین افغانستان میں کارروائیوں کے لیے استعمال نہیں ہوگی تاکہ ہم افغانستان کی خانہ جنگی میں دوبارہ الجھ نہ جائیں اور اپنی حدود میں کوئی فوجی بیس دینا نہیں چاہتے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘جہاں تک میری معلومات ہیں، امریکی 31 اگست کے بعد ہر قسم کی کارروائیاں یہاں تک افغانستان میں حملے بھی بند کردیں گے’۔

یاد رہے کہ طالبان، اشرف غنی اور ان کی حکومت کو امریکی کٹھ پتلی سمجھتے ہیں، ان کے اور افغان مذاکراتی ٹیم کے درمیان بات چیت کا آغاز گزشتہ برس ستمبر میں ہوا تھا لیکن اس میں کوئی قابل ذکر پیش رفت نہ ہوسکی۔

امریکا سمیت متعدد ممالک کے نمائندے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جنگ بندی کرانے کی آخری کوشش کے طور پر دونوں فریقین سے بات چیت کر رہے ہیں۔

امریکی افواج نے طالبان کی پیش قدمی کے خلاف افغان فورسز کی مدد کے لیے فضائی حملے جاری رکھے ہیں لیکن یہ واضح نہیں کہ کیا 31 اگست کے بعد بھی یہ تعاون جاری رہے گا۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان واضح کرچکا ہے کہ وہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد ملک میں کوئی امریکی فوجی اڈا نہیں چاہتا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں