کابل پر طالبان کا دوبارہ کنٹرول: صحافیوں، سماجی کارکنوں کی رائے منقسم

اپ ڈیٹ 15 اگست 2021
افغان شہری اپنے مستقبل کے حوالے سے غیریقینی صورتحال کا شکار ہونے کے باعث نقل مکانی پر مجبور ہیں—فوٹو: اے ایف پی
افغان شہری اپنے مستقبل کے حوالے سے غیریقینی صورتحال کا شکار ہونے کے باعث نقل مکانی پر مجبور ہیں—فوٹو: اے ایف پی

افغانستان کے صدر اشرف غنی اور ان کے قریبی ساتھی کے ملک چھوڑ کر جانے کے بعد طالبان نے جنگجوؤں کو دارالحکومت کابل میں داخل ہونے کی اجازت دے دی جبکہ افغان اور دیگر غیر ملکی شہری انخلا کے لیے ایئرپورٹ پہنچ رہے ہیں۔

اشرف غنی کے ملک چھوڑنے اور طالبان کے کابل میں داخل ہونے کے بعد افغان شہری اپنے مستقبل کے حوالے سے غیریقینی صورتحال کا شکار ہونے کے باعث نقل مکانی پر مجبور ہیں جبکہ مختلف ممالک بھی اپنے سفارتی عملوں کو فوجی دستوں کی مدد سے واپس بلارہے ہیں۔

طالبان کے کابل میں داخلے کے بعد سے مختلف شخصیات اور صحافیوں کی جانب سے موجودہ صورتحال پر اپنی رائے کا اظہار کیا گیا ہے۔

افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے اپنے فیس بک پیج پر ایک ویڈیو پیغام شیئر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اب بھی کابل میں ہیں اور انہیں اُمید ہے کہ موجودہ صورتحال امن مذاکرات کے ذریعے حل ہو جائے گی'۔

انہوں نے زور دیا کہ شہری اپنے گھروں میں ’پرسکون‘ رہیں اور مزید کہا کہ 'ہم افغان قیادت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلے کو حل کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں'۔

دنیا کی کم عمر ترین نوبیل انعام یافتہ پاکستانی اور انسانی حقوق کی کارکن ملالہ یوسفزئی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کی گئی ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ’جیسے طالبان افغانستان کا کنٹرول سنبھال رہے ہیں ہم مکمل طور پر صدمے میں ہیں'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'میں خواتین، انسانی حقوق کے علمبرداروں اور اقلیتوں کے حوالے سے بہت پریشان ہوں'۔

ملالہ کا مزید کہنا تھا کہ 'عالمی، مقامی اور خطے کی طاقتوں کو فوری طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کرنا چاہیے اور ہنگامی بنیادوں پر انسانی امداد فراہم کریں اور پناہ گزینوں اور شہریوں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے اقدامات کریں'۔

صحافی حامد میر کے مطابق '2 ماہ قبل اپنے کالم میں یہ لکھا تھا کہ افغان طالبان کا اشرف غنی کے کچھ قریبی ساتھیوں سے رابطہ ہے، وہ مخالف گروپوں کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو کی سوچ کے تحت کوئی راستہ نکالیں گے آج اشرف غنی کے قریبی ساتھی طالبان کے ساتھ بیٹھ کر انتقال اقتدار کا راستہ نکال رہے ہیں'۔

صحافی ندیم ایف پراجہ نے لکھا کہ 1989 میں سوویت فوجیوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں روسی حمایت یافتہ حکومت 3 سال تک قائم رہی ہے، یہ تو ایک ماہ بھی برقرار نہ رہ سکی'۔

مشرف زیدی نے لکھا کہ افغانیوں کا درد اور اذیت جو اپنی زندگی کی ایک اور بڑی تبدیلی دیکھ رہے ہیں وہ ناقابل فہم ہے اور پاکستانیوں کے لیے ناقابل برداشت ہوگا جو جھوٹا یقین رکھتے ہیں کہ کابل میں ہونے والے واقعات ان پر اثر انداز ہونے سے بہت دور ہیں، میں افغانیوں اور افغانستان کے لیے دعا گو ہوں'۔

صحافی طلعت حسین نے لکھا کہ 'ملا عمر کے دور میں دوبارہ خوش آمدید، تاہم، ماضی کے برعکس، اس بار شمال سے جنوب تک، مشرق سے مغرب تک ہر مربع میل ان کے کنٹرول میں ہے یا ان کی پہنچ میں ہے، نظریاتی اور طاقت کے کھیل ہمارے سامنے شروع ہونے کو ہے'۔

وجاہت کاظمی نے کہا کہ '15 اگست سقوطِ کابل، طالبان کچھ دیر میں باضابطہ طور پر کابل انتظامیہ کا کنٹرول سنبھال لیں گے'۔

معظم بیگ نے لکھا کہ 'ایک فائر کے بغیر افغانستان کے شہر اور صوبے طالبان کے قبضے میں جارہے ہیں، یہ امریکی قیادت میں کیے گئے حملے کے بالکل برعکس ہے جس کا آغاز ٹام ہاک کروز میزائلز اور 15 ٹن بموں سے ہوا تھا جن کے نتیجے میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے شاید امریکا اور اس کے اتحادی تبدیلی کے لیے کچھ سیکھ سکتے ہیں؟ نہیں'۔

یاد رہے کہ طالبان جنگجوؤں کو افغانستان کے صدر اشرف غنی اور ان کے قریبی ساتھی کے ملک چھوڑ کر جانے کے بعد دارالحکومت کابل میں داخل ہونے کی اجازت دے دی گئی ہے جبکہ افغان اور غیر ملکی شہری انخلا میں مصروف ہیں۔

طالبان کی پیش قدمی

واضح رہے کہ افغانستان میں امریکا نے 2001 میں پہلی مرتبہ طالبان حکومت کے خلاف حملے شروع کیے تھے، جو نائن الیون حملوں کا نتیجہ تھا۔

تاہم 2 دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے امریکا نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بعد گزشتہ برس فروری کو امن معاہدہ کیا تھا جس کی رو سے غیر ملکی افواج کے انخلا اور افغان حکومت کی طالبان کے ساتھ بات چیت پر اتفاق ہوا تھا۔

افغانستان میں جاری لڑائی میں رواں برس مئی سے ڈرامائی تبدیلی آئی جب امریکا کی سربراہی میں افغانستان میں موجود غیر ملکی افواج کے انخلا کی تاریخ کا اعلان کیا گیا تھا اور رواں مہینے کے اختتام سے قبل انخلا مکمل ہوجائے گا۔

جس کے پیشِ نظر طالبان کی جانب سے پہلے اہم سرحدی علاقوں پر قبضہ کیا گیا اور پھر برق رفتاری سے صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرتے چلے گئے۔

چند روز قبل ایک امریکی رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی تھی کہ طالبان 90 روز میں کابل پر قبضہ کرسکتے ہیں تاہم وہ انتہائی کم وقت میں اس وقت کابل میں داخل ہوچکے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں