کابل سے انخلا سب سے مشکل تھا، جو بائیڈن

اپ ڈیٹ 21 اگست 2021
امریکی صدر طالبان کی طرف سے تعاون پر یقین رکھتے ہیں — فائل فوٹو: رائٹرز
امریکی صدر طالبان کی طرف سے تعاون پر یقین رکھتے ہیں — فائل فوٹو: رائٹرز

واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ کابل کے ایئرپورٹ سے ہنگامی انخلا کے حتمی نتائج کی ضمانت نہیں دے سکتے اور اسے اب تک کی سب سے مشکل ایئر لفٹ آپریشن میں سے ایک قرار دیتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس سے ٹی وی پر خطاب میں کہا کہ 'یہ تاریخ کا سب سے بڑا، مشکل ترین فضائی سفر ہے، میں نہیں کہہ سکتا کہ اس کا حتمی نتیجہ کیا ہوگا'۔

انہوں نے کہا کہ امریکی افواج نے 14 اگست سے اب تک 13 ہزار اور جولائی سے اب تک 18 ہزار لوگوں کو ہوائی جہاز سے باہر نکالا ہے جبکہ مزید ہزاروں کو نجی چارٹر طیاروں کے ذریعے 'امریکی حکومت کی سہولت سے' نکالا گیا ہے۔

جو بائیڈن نے ایک تقریر میں اور نامہ نگاروں کے سوالات کے جواب میں اس تنقید کو مسترد کیا کہ انتظامیہ نے طالبان کی افغانستان میں پیش قدمیوں کی رفتار کو غلط سمجھا اور وہ وہاں 20 سالہ طویل امریکی موجودگی کے باوجود امریکیوں اور افغان اتحادیوں کے انخلا کو شروع کرنے میں سست روی کا شکار تھی۔

مزید پڑھیں: احمد شاہ مسعود کے بیٹے کا طالبان کے خلاف مزاحمت کا اعلان

امریکی صدر طالبان کی طرف سے تعاون پر یقین رکھتے ہیں جنہوں نے ایک ہفتے قبل کابل حکومت کو برطرف کر دیا تھا۔

جو بائیڈن نے کہا کہ امریکی حکام مسلسل طالبان کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

انہوں نے گروپ کو خبردار کیا کہ 'ہماری افواج پر کسی بھی حملے یا ایئرپورٹ پر ہمارے آپریشنز میں رکاوٹ کا فوری اور زبردست جواب دیا جائے گا'۔

اس دوران خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا کہ طالبان، مخالفین اور ان کے خاندانوں کو معاف کرنے کے وعدوں سے باز آسکتے ہیں جیسا کہ نیٹو نے اس گروپ سے افغانیوں کو ملک چھوڑنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

شدت پسندوں نے اتوار کے روز کابل پر قبضہ کر لیا تھا جس نے امریکا اور اس کے غیر ملکی اتحادیوں کو چونکا دیا جو افغانستان سے انخلا مکمل کرنے میں صرف دو ہفتے کے فاصلے پر تھے۔

سیکڑوں، ہزاروں افغانوں نے طالبان کے قبضے کے بعد ملک چھوڑنے کی کوشش کی تھی۔

نیٹو کے سربراہ جینس اسٹولٹن برگ نے کہا کہ بنیادی چیلنج 'اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ لوگ کابل ایئرپورٹ تک پہنچ سکیں اور اندر داخل ہو سکیں'۔

انہوں نے اتحاد کے وزرائے خارجہ کی ہنگامی ویڈیو لنک کانفرنس سے خطاب کیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی مدد سے افغانستان سے 1100 افراد کا انخلا ممکن ہوا، منیر اکرم

جرمن حکومت کے ترجمان نے بتایا کہ ایک جرمن شہری کو ایئرپورٹ پر جاتے ہوئے گولی مار دی گئی۔

طالبان نے بار بار مکمل معافی کا وعدہ کیا ہے لیکن اقوام متحدہ کے لیے ایک انٹیلی جنس دستاویز میں کہا گیا ہے کہ عسکریت پسند گھر گھر جا کر سابق حکومتی عہدیداروں اور امریکی اور نیٹو افواج کے ساتھ کام کرنے والوں کا شکار کر رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے خطرے کی تشخیص کرنے والے کنسلٹنٹس کی ایک خفیہ دستاویز کے مطابق طالبان، کابل ایئرپورٹ کے راستے میں لوگوں کی اسکریننگ بھی کر رہے تھے۔

گروپ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کرسچین نیلمین نے کہا کہ 'وہ ان لوگوں کے خاندانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جو اپنے آپ کو پیش کرنے سے انکار کر رہے ہیں اور ان کے اہل خانہ پر شرعی قوانین کے مطابق مقدمہ چلا رہے ہیں اور سزا دے رہے ہیں'۔

جرمن نشریاتی ادارے 'ڈوئچے ویلے' نے بھی رپورٹ کیا ہے کہ طالبان نے ان کے ایک صحافی کے رشتہ دار کو ایڈیٹر کی تلاش کے دوران گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

ڈی ڈبلیو کے ڈائریکٹر جنرل پیٹر لمبرگ نے کہا کہ 'طالبان کے ہاتھوں کل ہمارے ایک ایڈیٹر کے قریبی رشتہ دار کا قتل ناقابل یقین اور افسوسناک ہے اور اس شدید خطرے کی گواہی دیتا ہے جس میں افغانستان میں ہمارے تمام ملازمین اور ان کے خاندان ہیں'۔

طالبان نے کہا ہے کہ ان کے لوگوں کو کسی کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے، تاہم انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ ان کے چند افراد لوگوں کے گھروں میں گھس رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: افغانستان سے برطانیہ پہنچنے والا 5 سالہ بچہ ہوٹل کی کھڑکی سے گر کر ہلاک

ایک سینئر طالبان عہدیدار نذر محمد مطمئن نے ایک ٹوئٹر پوسٹ میں کہا کہ 'چند لوگ اب بھی ایسا کر رہے ہیں، ممکنہ طور پر لاعلمی میں'۔

مخالفت

افغانستان کے چند حصوں میں طالبان کی مخالفت کے چند آثار ملے ہیں۔

مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ شمالی بغلان صوبے میں مزاحمتی جنگجوؤں نے تین اضلاع کو طالبان کے کنٹرول سے واپس لے لیا ہے۔

سابق وزیر داخلہ مسعود اندرابی جو ملک چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں، کہا کہنا تھا کہ 'آج طالبان دیہاتوں میں گئے اور لوگوں سے پوچھ گچھ کر رہے تھے، اس سے (لوگ) ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے'۔

وادی پنجشیر میں ایک مزاحمتی تحریک بھی تشکیل پارہی ہے جس کی قیادت نائب صدر امراللہ صالح اور افغانستان کے سب سے مشہور طالبان مخالف جنگجو احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود کر رہے ہیں۔

احمد مسعود نے کہا کہ وہ اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے کے لیے تیار ہیں۔

سابق اعلیٰ حکومتی عہدیدار نے فیس بک پر اپنی اور سابق صدر حامد کرزئی کی صوبوں میں بزرگوں اور مزاحمتی کمانڈروں سے ملاقات کی تصاویر پوسٹ کیں۔

اس ہفتے افغانستان کے شہروں میں چھوٹے، الگ تھلگ احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے جس میں لوگوں نے ملک کے سیاہ، سرخ اور سبز رنگ کا جھنڈا لہرایا۔

طالبان جنگجوؤں نے جلال آباد میں یہ پرچم لہرانے والے درجنوں افغانیوں کو منتشر کرنے کے لیے گولیاں بھی چلائیں۔

جمعے کی نماز میں دعائیں

ملک میں افغان حکومت کے خاتمے کے بعد پہلی جمعہ کی نماز میں افغانوں سے اپیل کی گئی کہ وہ نئی حکومت کو موقع دیں۔

ایک مذہبی اسکالر نے کابل کی مسجد میں خطبہ دیا جبکہ مسلح افراد نے اسے گھیرے میں لے رکھا تھا۔

ہرات میں ایک عبادت گزار سبقت اللہ نے کہا کہ طالبان برسوں کے تشدد کے بعد شہر میں سکیورٹی لائے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'لوگ اپنے دوستوں یا دیگر مقامات پر ملنے نہیں جاسکتے تھے، اب ہر ایک سکون میں ہے'۔

تبصرے (0) بند ہیں