پاک-افغان سرحد پر صورتحال ہمارے کنٹرول میں ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر

اپ ڈیٹ 27 اگست 2021
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار  راولپنڈی میں پریس کانفرنس کر رہےتھے— فوٹو: ڈان نیوز
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار راولپنڈی میں پریس کانفرنس کر رہےتھے— فوٹو: ڈان نیوز

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر ) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا ہے کہ افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کا خاتمہ سب کی امیدوں کے برعکس تھا تاہم پاک-افغان سرحد پر حالات پرامن اور ہمارے کنٹرول میں ہیں۔

راولپنڈی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ابھرتے ہوئے حالات اور ہمیں درپیش قومی سلامتی کے مسائل اور کسی بھی قسم کے عدم استحکام کے خدشات سے نمٹ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے سب کو معلوم ہے، امریکا اور نیٹو افواج کا انخلا پہلے سے طے شدہ تھا، پاکستان نے پہلے ہی افغانستان کے ساتھ سرحد کے تحفظ کے لیے اقدامات کردیے تھے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سرحد محفوظ اور مستحکم ہونے کے مثبت اثرات پڑوسی ملک پر بھی ہوں گے۔

مزید پڑھیں: امریکی صدر کا داعش خراسان کے اثاثوں اور قیادت کو نشانہ بنانے کا حکم

پڑوسی ملک میں ہونے والے واقعات کی ٹائم لائن دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 15 اگست سے قبل افغان نیشنل آرمی سے تعلق رکھنے والے کئی فوجی دو سے زائد مواقع پر پاکستان میں محفوظ راستے کی تلاش میں داخل ہوئے کیونکہ وہ خوف زدہ تھے کہ ان کی پوسٹوں پر طالبان حملہ کر سکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'انہیں قبول کیا گیا اور فوجی اصولوں کے تحت محفوظ راستہ دیا گیا'۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی مسلح افواج نے اندازہ لگایا تھا کہ حالات کس طرح بدلنے جا رہے ہیں اور عدم استحکام کا امکان ہے جس کی وجہ سے کنٹرول کو یقینی بنانے کے لیے فوجیوں کو اہم سرحدی گزرگاہوں پر منتقل کردیا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ '78 میں سے 17 سرحدی گزرگاہوں کو (مزید تعیناتی کے لیے) نوٹیفائی کیا گیا تھا اور تمام غیر قانونی تجاوزات کو بند کر دیا گیا تھا، 15 اگست کے بعد ٹرمینلز اور سرحدی گزرگاہیں کھلی رکھی گئیں، قافلے بھی دونوں اطراف سے مسلسل آ اور جارہے ہیں'۔

غیرملکیوں کا افغانستان سے انخلا

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افغانستان سے غیر ملکیوں کو نکالنے کے لیے دوسرا سب سے بڑا مقام پاکستان ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اب تک 113 پروازیں فوجی اور تجارتی دونوں افغانستان سے پاکستان پہنچ چکی ہیں، پاک-افغان سرحد پر حالات معمول پر ہیں اور کوئی ناخوش گوار واقعہ نہیں ہوا ہے۔

'پاکستان، افغان تنازع سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل'

پڑوسی ملک میں کئی دہائیوں سے جاری جنگ کے اثرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ افغانوں کے علاوہ اس تنازع کے 'سب سے زیادہ متاثرین' پاکستانی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'سوویت یونین کے حملے کے بعد سے ہمیں خانہ جنگی کا سامنا کرنا پڑا ہے، معاشی نقصانات کے علاوہ 86 ہزار سے زائد جانیں ضائع ہو چکی ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: کابل ایئرپورٹ کے باہر دو دھماکوں میں 13 امریکی فوجیوں سمیت 85 افراد ہلاک

انہوں نے کہا کہ 'جہاں ہم گزشتہ دو دہائیوں کے دوران دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں شامل تھے، مشرقی سرحد پر بھی ہم نے تین مرتبہ بڑی کشیدگی کا سامنا کیا، پاکستان میں ایک سال میں 90 سے زائد دہشت گردی کے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں'۔

اس کے علاوہ 2014 کے بعد سے پاکستان کی مشرقی سرحد پر 12 ہزار 312 جنگ بندی کی خلاف ورزیاں ہوئیں۔

اس عرصے کے دوران فوجی کارروائیوں کی تفصیلات دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ مسلح افواج نے 1237 بڑے اور معمولی آپریشن کیے اور مغربی سرحد کے ساتھ 46 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ علاقہ دہشت گردوں سے پاک کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہماری عظیم قوم اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تعاون سے ہماری مسلح افواج دہشت گردی کی لہر کو موڑنے میں کامیاب ہوئیں'۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان، افغان حکومت سے بارڈر کنٹرول میکانزم کو باضابطہ بنانے کے لیے رابطہ کر رہا ہے تاکہ پاک-افغان سرحد پر 'عدم استحکام' سے نمٹا جا سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے انٹیلی جنس شیئرنگ کا طریقہ کار بھی تجویز کیا تاہم ان اقدامات پر 'بہتر جواب نہیں ملا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان فوجی سطح پر بھی رابطہ کر رہا ہے، 'پاکستان کی عسکری قیادت کی طرف سے کئی اعلیٰ سطحی دورے ہوئے جن میں چیف آف آرمی اسٹاف کے چار دورے بھی شامل تھے'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم نے کئی بار اسے (ٹریننگ) کی پیش کش کی لیکن صرف 6 کیڈٹ آئے تاہم سینکڑوں اور ہزاروں افغان آرمی کے سپاہی بھارت میں ٹریننگ کے لیے گئے اور بھارتی افواج کی کئی تربیتی ٹیمیں افواج کی تربیت کے لیے افغانستان میں بھی گئیں'۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ پیش کش کرنے کی وجہ یہ تھی کہ 'ہمیں یقین ہے کہ افغانستان میں امن پاکستان میں امن سے براہ راست جڑا ہوا ہے'۔

افغانستان میں بگاڑ

ڈی جی آئی ایس پی آر نے نشاندہی کی کہ پاکستان افغانستان میں 'بگاڑ پیدا کرنے والوں کے منفی کردار کے بارے میں دنیا کو بار بار خبردار کر رہا ہے' جو کہ مسلسل ایسا کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب پاکستان کی مسلح افواج اپنی مغربی سرحد پر آپریشن کر رہے تھے، اس کی مشرقی سرحد پر جنگ بندی کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں ہو رہی تھیں۔

میجر جنرل بابر افتخار نے بتایا کہ '2017 میں بڑے پیمانے پر صلاحیت بڑھانے کے اقدامات کیے گئے تھے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مغربی سرحدوں کو جامع طور پر محفوظ بنانے کا وژن پیش کیا، ہم نے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں فرنٹیئر کور کے لیے 60 سے زائد نئے ونگز بنائے'۔

مزید پڑھیں: افغانستان سے انخلا میں سہولت کاری پر یورپی کونسل کے سربراہ پاکستان کے شکر گزار

ان کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ پاکستان نے اپنی سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے دیگر اقدامات کیے، بشمول ٹیکنالوجی اور نگرانی کو اپ گریڈ کرنا، سینکڑوں سرحدی واچ ٹاور تعمیر کرنا اور سرحد پر باڑ لگانا جس پر 90 فیصد سے زائد کام ہوچکا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ 'دو دہائیوں کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے پوری قوم کے نقطہ نظر سے دہشت گردی کی لعنت کا اچھی طرح مقابلہ کیا ہے، یہ تمام کارروائیاں ناقابل تسخیر جذبے اور پوری قوم کی کوششوں کی عظیم قربانی کا مظہر ہیں'۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ اگر افغان طالبان، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پر قابو نہیں پاسکتے تو پاکستان کیا اقدامات کرے گا تو ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کی پناہ گاہیں موجود ہیں۔

تاہم انہوں نے نشاندہی کی کہ طالبان نے کہا ہے کہ وہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور 'ہمیں ان کی بات پر یقین کرنا ہوگا'۔

پاکستان کے حالات معمول پر آنے کی توقع کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ’ہم بہتری کی امید کر رہے ہیں اور ہم نے اقدامات کیے ہیں'۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان حکومتی سطح پر 'خوش گوار تعلقات' کی توقع رکھتا ہے اس حوالے سے 'پر امید ہونے کی وجوہات' ہیں۔

ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ ابھی دیگر ممالک کے ساتھ فوج سے فوج کا رابطہ نہیں ہے، تاہم بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر حملہ اور نگرانی کے لیے جنگلی جانوروں کے استعمال کی اطلاعات 'تشویش ناک' تھیں۔

بھارتی اقدامات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ 'مجھے امید ہے کہ دنیا ان کو اتنا نیچے گرنے کا ذمہ دار ٹھہرائے گی، ہم نگرانی کے ان ذرائع سے آگاہ ہیں اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی طرف سے اقدامات کر رہے ہیں'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں